چھانگ چھون (شِنہوا) چھانگ چھون شہر کے مرکزی علاقے میں ایک انڈور ثقافتی سیاحتی شہر "دی ہل” دن بھر سیاحوں سے بھرارہتا ہے۔جی لین یونیورسٹی اکنامکس اسکول میں عالمی اقتصادیات اور عالمی تجارتی نظریات جیسے کورسز پڑھانے والے کوہاٹ کے شوقیہ کوہ پیما سید حسنات کا کہنا ہے کہ دی ہل مجھے اپنے آبائی شہر اور بچپن کا احساس دلاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن یہ "ہل” قدرتی طور پر بننے والی پہاڑی چوٹی نہیں ہے بلکہ ایک تجارتی علاقہ ہے جسے ہائیکنگ کے تجربہ سے متاثرہوکر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ جب ہم یہاں سے گزرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم قدم بہ قدم کسی پہاڑی پرچڑھ رہے ہیں۔ یہاں ہر قدم حیرت کا باعث بن سکتا ہے، چاہے وہ گڑیا خریدنا ہو ، دودھ کی چائے کا ذائقہ چکھنا ہو یا اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا ہو۔اپنے منفرد خریداری کے تجربے کے ساتھ "دی ہل” بتدریج چھانگ چھونگ میں ایک ابھرتی ثقافتی سیاحت میں ایک پہچان بن چکا ہے، ہانگ چھی شاہراہ شہر میں سیاحت کے عروج کو سمجھنے کے لئے ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ "ہل” اسی شاہراہ پر واقع ہے۔چھانگ چھون میں 2023 کے دوران 14 کروڑ 70 لاکھ سے زائد سیاح آئے جو گزشتہ برس کی نسبت 161.74 فیصد کا اضافہ ہے۔چھانگ چھون میں ہانگ چھی شاہراہ سیاحوں میں ایک مقبول مقام ہے۔ جہاں پرانی یادیں اور نئے رجحانات ایک دلچسپ انداز سے ملتے ہیں ۔ تقریباً ایک صدی پرانی اس شاہراہ پر نہ صرف مصروف تجارتی علاقہ سیاحوں کو اپنی سمت راغب کرتا ہے بلکہ چھانگ چھون فلم اسٹوڈیو عجائب گھر اور ٹرام بھی ماضی کی جھلکیاں پیش کرتی ہے جس سے لطف حاصل ہوتا ہے۔چھانگ چھون ٹرام لائن 54 کے ساتھ خوبصورت مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو وقت کی رفتار کی پیروی کرتے اور شہر کی رونق کا مشاہدہ کراتے ہیں۔ ہانگ چھی شاہراہ کے معروف تجارتی علاقے کو شہر کے پرانے رہائشی علاقوں کے ساتھ جوڑنے والی ٹرام اب چھانگ چھون میں کئی سیاحوں کے لئے ثقافتی سیاحت کا درجہ رکھتی ہے۔سید حسنات کا ما ننا ہے کہ 80 برس سے زائد کی تاریخ رکھنے والی ٹرام خود کو نئے انداز میں پیش کررہی ہے، خاص کافی بار اور ثقافتی سیاحتی ٹرینیں اس کے آپریشن میں نئی خصوصیات کا اضافہ کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ٹرین کے ڈبوں میں کچھ مسافر کافی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ دیگر مختلف ثقافتی اور تخلیقی اشیا کی خریداری کرتے ہیں۔ یہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ خوشگوار لمحات گزارنے کے لئے ایک مثالی جگہ ہے۔حسنات کے بیٹے سید آیان صوبہ جی لین کی خوبصورتی سے بھی اتنے ہی متاثر ہیں ۔ رواں سال اگست میں انہوں نے صوبہ جی لین کے یان جی شہر میں چینی کوریائی نسلی گروپ لوک کسٹم پارک کا دورہ کیا اور سفر کے حوالے سے تصاویر بنائیں۔ پاکستان سے آتے ہوئے انہوں نے روایتی کوریائی لباس زیب تن کررکھا تھا اور وہ انتہائی خوبصورت لگ رہے تھے۔سید آیان نوجوانی سے ہی چین میں مقیم ہیں اور روانی سے چینی بولتے ہیں۔ انہیں چین سے بہت لگاؤ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جی لین صوبے میں حیاتیاتی ماحول اچھی طرح سے محفوظ ہے۔ جنگلات اور ندی نالے اپنی قدیم حالت میں برقرارہیں اور لوگ بہت خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں۔پاک چین دوستی پربات کرتے ہوئے سید حسنات کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی میں اپنا تعارف پاکستانی کے طور پر کرتا ہوں تو چھانگ چھون کے مقامی لوگ خاص طور پر خوش ہوتے ہیں اور پیار سے مجھے اچھا دوست کہتے ہیں۔سید حسنات اور ان کے بیٹے کی داستان ثقافتی تبادلے اور باہمی طور پر سیکھنے کے ساتھ ساتھ چین۔ پاکستان دوستی کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین میں قیام کے دوران انہوں نے چینی عوام کی دوستی اور جوش و خروش کو بہت محسوس کیا ہے۔ یہ گرم جوشی مجھے بہت قربت کا احساس دلاتی ہے اور اس نے مجھے چین ۔ پاکستان دوستی کا گواہ اور اس کی تشہیر کرنے والا بنادیا ہے۔