جنگیں جہاں دنیا میں تباہی و بربادی کا پیغام لے کر آتی ہیں وہیں جنگوں کے دوران نئے جذبے اور نئے ولولے وجود میں آتے ہیں۔ ہر شعبۂ زندگی پر جنگوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عالمی افسانہ اور اردو افسانہ بھی جنگوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ جنگ کے اردو افسانے پر اثرات اور فلسطین اور اردو افسانہ پر بات کرنے سے قبل ہم اردو افسانے کا مختصر جائزہ لیں گے۔
جہاں تک اردو افسانے کا تعلق ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اردو افسانے کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کی ابتدا میں ہوا۔ 1857 ءکے بعد بر صغیر میں ہونے والی فرقہ واریت،نفرت حسد تعصب ، قحط بنگال،دو قومی نظریہ ، مسلم لیگ کی سیاست، تحریک آزادی، جملہ سیاسی و تاریخی واقعات کو اردو افسانے میں سمودیا گیا ہے۔
اردو افسانے نے مختلف ادوار طے کیے ابتدا میں منشی پریم چند کی قیادت میں حقیقت پسندی کے رحجان کا علم بردار رہا ۔ ساتھ ہی ساتھ سجاد حیدر یلدرم کی قیادت میں رومانویت کے رجحان نے بھی فروٖغ پایا۔ اس دوران ان گنت افسانہ نگار اور ان کے شاہکار افسانے منظرِ عام پر آئے۔
پہلی جنگ عظیم جو 1914ء میں لڑی گئی اس کے اثرات کے تحت کئی افسانے تخلیق ہوئے. ہندوستان سے فوجی نوجوان بھرتی کرکے لے جائے گئے جو نہ کبھی خود واپس آسکے اور نہ ہی ان کی تنخواہیں والدین کو موصول ہوسکیں۔ اس حوالے سے اس دور کے افسانہ نگاروں نے راہ تکتی ہوئی مائیں، بیویاں، منگیتروں اور یتیم بچوں کا تذکرہ بڑے دل سواز انداز میں کیا ہے۔پہلی جنگ عظیم نے جنوبی ایشیا کو غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر دیا تھاابھی پہلی جنگ عظیم کے اثرات سے ہی دنیا سنبھلی نہ تھی۔کہ روسی انقلاب آگیا۔
اردو افسانے پر روسی انقلاب اور ادب کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔1930ء کے بعد اردو ادب پر مارکسی نظریات اور خیالات کا اثر بہت نمایاں نظر آنے لگا۔مارکسی نظریات کے زیر اثر اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی۔ترقی پسند افسانہ نگاروں نے افسانے میں ایک نئی جہت کو فروغ دیا۔ترقی پسند نظریات کے حامل افسانہ نگاروں میں احمد علی، سجاد ظہیر، علی عباس حسینی،خواجہ احمد عباس، عزیز احمد، اوپندر ناتھ اشک، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو،عصمت چغتائی، محمد حسن عسکری، حیات اللہ انصاری، احمد ندیم قاسمی ،سبھی کے یہاں طبقاتی کشمکش، جنسی ,نفسیاتی اور سیاسی موضوعات نظر آتے ہیں۔
تحریک خلافت اور ترکی کی آزادی کے تحت بھی اردو افسانہ تخلیق ہوا۔ سلطان حیدر یلدرم بسلسلۂ ملازمت قسطنطنیہ گئے توا نھوں نے ترکی ادب کا مطالعہ بطور خاص کیا جس پر فرانسیسی ادب کے اثرات غالب تھے ۔یلدرم کے افسانوں غربت وطن، سیل زمانہ، کوسم سلطان، میں وطن کی آزادی کی تڑپ موجود ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی افسانہ نگاروں نے تحریک خلافت پر قلم اٹھایا۔
6 اور 9 اگست 1945 کودوسری جنگ عظیم میں انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ پیش آیا جو آج بھی تاریخ کا بدترین دن مانا جاتا ہے۔ اس دن امریکا نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرایا دیکھتے ہی دیکھتے دو سے تین لاکھ لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ اس واقعے نے پوری انسانیت کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیروشیما یا ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی پیدائشی نقص پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ادیبوں اور شاعروں نے اس عمل پر انتہائی غم و غصے اور جاپان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اردو افسانہ نگاروں نے بھی اپنے رد عمل کو فوری طور پر افسانوں میں پیش کیا ۔مثلا احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ہیروشیما سے پہلے ہیروشیما کے بعد، ابن سعید کا افسانہ ہیروشیما، کرشن چندر کا افسانہ ہوا کے بیٹے ،غلام عباس کا افسانہ دھنک، اس کے علاوہ منٹوں نے چچا سام کے نام خط میں ایٹم بم کا تحفہ مانگ کر ایک گہرے طنز کا اظہار کیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم، روسی انقلاب، اور دوسری جنگ عظیم نے ایشیا کو ایک خطرناک صورتحال سے دو چار کردیا۔
1947 میں برطانوی تسلط سے آزادی اور پاکستان کا قیام دنیاکے دس المناک حادثوں میں سے ایک ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ افراد نے ہجرت کی۔ دس لاکھ سے زائد افراد قتل کیے گئے۔ مال و اسباب لوٹا گیا۔ لاکھوں لڑکیوں کو کوٹھوں پر فروخت کردیا گیا ۔فسادات کے حوالے سے سب سے پہلا نام کرشن چندر کا آتا ہے۔ کرشن چندر نے فسادات کے پس منظر میں کئی کہانیاں لکھیں جو ان کے افسانوں کے مجموعے ’’ہم وحشی ہیں‘‘ میں اکھٹی شائع ہوئیں۔ اندھے، لال باغ، ایک طوائف کا خط، جیکسن، امرتسر، پشاور ایکسپریس، اس مجموعے میں شامل افسانے ہیں۔ کرشن چندر کے افسانے، جانور، دوسری موت بھی فسادات کے پس منظر میں لکھے گئے افسانے ہیں۔
منٹو نے فسادات کے موضوع پر کئی افسانے لکھ کر انسانی المیے کو اُبھارنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانے، کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ، سہائے شریفین، موذیل ،گورمکھ سنگھ کی وصیت، فسادات کے المیے پر لکھے گئے بہترین افسانے تصوّر کیے جاتے ہیں ۔
فسادات کے پس منظر میں عصمت چغتائی کا افسانہ ’’جڑیں‘‘،خواجہ احمد عباس کا افسانہ ’’میری موت‘‘، سہیل عظیم آبادی کا افسانہ ’’اندھیارے میں ایک کرن‘‘، احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’پرمیشر سنگھ‘‘، راما نند ساگر کا افسانہ ’’اور انسان مرگیا‘‘، جمیلہ ہاشمی کا افسانہ ’’بن باس‘‘، راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ’’لاجونتی‘‘، ممتاز مفتی کا افسانہ ’’ثمینہ‘‘، خدیجہ مستور کا افسانہ ’’ٹامک ٹوئیے‘‘، حیات اللہ انصاری کا افسانہ ’’شکر گزار آنکھیں‘‘ اور، احمد عباس کا افسانہ ’’انتقام‘‘ بہترین افسانے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے افسانے، چڑیل، فساد، میں انسان ہوں، تسکین، جب بادل امڈے، اندمال ، بھی فسادات کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ ممتاز حسین کا’’سورج سنگھ‘‘، احمد علی کا ’’قید خانہ‘‘، شوکت صدیقی کا’’ تانتیا، ہفتے کی شام، اندھیرا‘‘، اکمل علیمی کا ’’شب گزیدہ سحر‘‘، ہاجرہ مسرور کا’’بڑے انسان بنے بیٹھے ہو‘‘ اور ’’امتِ مرحوم‘‘ ہجرت اور فسادات اور عصری حسیت پر لکھے گئے افسانے ہیں ۔شان الحق حقی کا ’’ننھی کا توتا‘‘، اشفاق احمدکا ’’گڈریا‘‘، قدرت اللہ شہاب کا ’’یا خدا‘‘، اوپندر ناتھ اشک کے افسانے ’’گیانی ،چارہ کاٹنے کی مشین‘‘، شکیلہ اختر کا’’آخری سہارا‘‘ اور ’’ایک دن‘‘ بھی ہجرت کے پس منظر میں تحریر کیے گئے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’’تسکین‘‘ اور ’’بادل اُمڈ آئے‘‘، انتظار حسین کے ’’بن لکھی رزمیہ‘‘، پریم ناتھ در کا ’’آخ تھو‘‘، جاوید جعفری کا ’’جاگے پاک پروردگار‘‘ بھی فسادات اور تقسیم کے دُکھ کی عکاسی کرتے ہیں ۔1949ء سے1959ء تک تمام افسانے ہی گہری باخبری کے ساتھ لکھے گئے۔قیام پاکستان کے فوراََ بعد عالمی اور علاقائی سطح پر امن و سکون کو متاثر کرنے والا اہم ترین مسئلہ ، مسئلۂ کشمیر ہے۔ آزادی کے بعد برصغیر میں پیدا ہونے والے بدامنی کے تقریبا سبھی واقعات اسی مسئلے کی پیداوار ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی جنگیں یعنی 1948ء,ء1965 ءاور 1971 ءمیں سقوط مشرقی پاکستان، معرکہ کارگل اسی گھمبیر مسئلے کے بھیانک نتائج ہیں۔ ہندوستانی اور پاکستانی افسانہ نگاروں نے مسئلہ کشمیر پر بہت کم لکھا البتہ کشمیر کے افسانہ نگارپریم ناتھ پردیسی کے افسانے، ان کوٹ، اگلے سال، ٹیکہ بٹنی، دیوتا کہاں ہیں، میں کشمیر کے مسائل کی بھرپور عکاسی ملتی ہے ۔راما نند ساگر کے پہلے افسانوں کے مجموعے میں شامل افسانے، بخشش، جنگ کے باعث، رد عمل، آئینے ، اور آب حیات میں کشمیر کا پس منظر نظر آتا ہے۔ برج پریمی کا افسانہ مانسبل جب سوکھ گیا، سرفراز حسین تحسین جعفری کے افسانے، تکمیل آرزو، اور ،الٹی میٹم،کرشن چندر کا افسانہ، کشمیر کو سلام، نیا مدرسہ، منٹو کے افسانے، ٹیٹوال کا کتا، آخری سلیوٹ ،قدرت اللہ شھاب کے افسانے، ایک ڈسپیچ، پکے پکے آم، پھوڑے والی ٹانگ، سلیم خان گمی کا افسانہ، خون کی مشعل روشن ہے، تحسین جعفری کا تکمیل آرزو، احمد شمیم کا افسانہ الاؤ کشمیر کے پس منظر میں لکھے گئے افسانے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بر صغیر کے اتنے اہم مسئلے پر اے گریڈ افسانہ تخلیق ہی نہیں ہوا اس بدنصیب خطے کی سیاسی تاریخ جس بھی سطح پر ادب میں رقم ہوئی وہ اپنی جگہ پر اہم ہے۔ لیکن ادب جو اپنی اصلی تاریخ سے جڑا ہوا ہوتا ہے اور ایک دستاویز کہلاتا ہے اس میں اس فریضے کی ادائی میں کوتاہی برتی گئی ہے ۔کچھ عرصے قبل محمد سعید نے کشمیر کے پس منظر میں لکھے گئے افسانوں کا ایک انتخاب ’’غیرت کشمیر ‘‘کے نام سے شائع کیا۔جس میں فوزیہ نقوی، نجمہ محمود، وقار ملک، احمد شمیم،کہکشاں ملک، غیاث صحرائی، خالد نظامی، سلیم خان گمی، ابن غنی، عظمت یزدانی، منصور، الطاف پرواز، تحسین جعفری،ایس اے ناز، ریاض احمد گلزئی، منیر خالد، نسیم اے پرواز، ناصر الدین، خواجہ عبدالرشید، مقبول احمد سید منیزہ احمد شمیم، اور بیگم نسیم علوی کے وہ افسانے شامل ہیں جو مسئلہ کشمیر پر لکھے گئے ہیں ۔
جنگِ ستمبر یا ۱۹۶۵ء کی جنگ کے اثرات اُردو اَدب پر بھی رونما ہوئے۔۱۹۶۵ء کی جنگ کے پس منظر میں کئی افسانہ نگاروں نے عمدہ افسانے تراشے جن میں غلام الثقلین نقوی، احمد ندیم قاسمی، عفرا بخاری، فرخندہ لودھی، مسعود مفتی اور صادق حسین شامل ہیں۔مسعود مفتی کا مجموعہ ’’رگ سنگ‘‘ اور غلام الثقلین نقوی کا مجموعہ ’’نغمہ و آگ‘‘ کے سبھی افسانے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں ۔غلام الثقلین نقوی کے افسانے کا فوری شمع، ڈیک کے کنارے، سبز پوش، جلی مٹی کی خوشبو، پاک بھارت جنگ کے تناظر میں لکھے گئے ہیں۔ احمد شریف (رنگوں کا ڈبہ)، صادق حسین (انسان)، فرخندہ لودھی (پاربتی)، احمد ندیم قاسمی (کپاس کا پھول)، اختر جمال (مئے تلخی ایّام)، رضیہ فصیح احمد(خندق کا پودا)، انتظار حسین (سیکنڈ رائونڈ)، عفرا بخاری (کروٹ)، خدیجہ مستور(ٹھندا میٹھا پانی)، ۱۹۶۵ء کی جنگ کے پس منظر میں لکھے گئے افسانے ہیں۔
16/ دسمبر/ 1971 سُقوطِ مشرقی پاکستان نے اُردو افسانے پر گہرے اثرات مرتب کیے اور اس سانحے سے متاثر ہوکر اُردو میں کئی لافانی افسانے لکھے گئے تھے۔سُقوطِ مشرقی پاکستان سے قبل آغا سہیل کے افسانے ’’پرچم‘‘ اور غلام محمد کے افسانے ’’ایک سہما ہوا شخص‘‘ اور محی الدین نواب، مسعود اشعر، غلام محمد اور زین الدین وغیرہ بنگال کے زوال پذیر معاشرے کا نقشہ پیش کرچکے تھے ۔سُقوطِ ڈھاکہ کے بعد ابراہیم جلیس کے افسانوں کا مجموعہ ’’الٹی قبر‘‘ منظرعام پر آیا جس میں کل نو افسانے ہیں۔ افسانہ ’’الٹی قبر‘‘ کا موضوع آباد کاری کا مسئلہ ہے ’’ جس میں بنگلہ دیش میں نذرل کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو زیرِ بحث لایا گیا ہے ۔رضیہ فصیح احمد کے افسانے، (پل، ورثہ)، انور عنایت اللہ کا (ستم درستم)، انتظار حسین کے (شہر افسوس، اندھی گلی، وہ جو کھوئے گئے، ہندوستان سے ایک خط، اسیر، نیند، دیوار)، اے حمید کا(اب جاگتے رہناہے)، اختر جمال کا(دوسری ہجرت، پُرانی جڑیں، زرد پتوں کا بن، پس دیوار زنداں)، مسعود اشعر کے (دُکھ جو مٹی نے دیے، آنکھوں پر دونوں ہاتھ، اپنی اپنی سچائیاں، ڈاب اور بیئر کی ٹھنڈی بوتل، بیلانائی رے جولدی جولدی)، پروفیسر محمود واجد کا (آدھا سفر)، امرائو طارق کا (بیس سال بعد)، شہزاد منظر کے(تیسرا وطن، سزا، سراب، ندیا کہاں ہے تیرا دیس، پچھتاوا، دشمن، اب ہم کہاں جائیں گے ماں، اجنبی، یوٹوپیا)، آغا سہیل کے (پان، زبان ِخنجر، پرچم، ٹھکانہ کہیں نہیں)، ڈاکٹر سلیم اختر کے (محاذ 1971ء سب کہاں، شہربدری، شہر ماجرا، سمندر کی چوری)، مسعود مفتی کے(خوش قسمتی، جال، صدیوں پار، سپنا، اُمید، کفارہ، نیند، تشنگی، ناگفتنی، باغی)، ش۔ صغیر ادیب کا (خون پھر خون ہے)، محمد منشایاد کا(دوپہر اور جگنو)، فرخندہ لودھی کا(برسات کی گرم ہوا)، غلام محمد کے( نیند، منزل اپنی اپنی، پہچان بڑی مشکل ہے، اُداسی، ترک وفا، تین مسافر، کرب، ایک سہما ہوا شخص، بکرم پور ہائوس، پُراسرار بندے)، احمد زین الدین کے(زرد موسم کی صلیب، وہ شجر تھا موسم دار کا، درد کی فصلیں)، ڈاکٹر رشید امجد کے (بے ثمر عذاب، ہریالی بارش مانگتی ہے، کھیل، ٹوٹتا ہوا سانس، کہانی ایک زوال کی، ریت پرگرفت، بچی ہوئی پہچان، ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک طویل مکالمہ)، امّ عمارہ کے (بہ گناہی بے گناہی، امرلتا، کروٹ، جب آنکھ کھلی، کس نے کس کو اپنایا)، ڈاکٹر مشرف احمد کا(سرحدیں)، پروفیسر علی حیدر ملک کا(پسپائی کا آخری موڑ)، اے خیام کا(اجنبی چہرے)، شہناز پروین کا(مکتی)، طارق محمود کا (آئی لینڈ، لال باغ، سرکس)، جمیل عثمان کا (خالی ہاتھ، چھوٹا پاکستان، پرچم ستارہ و ہلال، روشنی بے گھر ہوئی، کلیرنس، راہ نوردِ شوق)، آصف فرخی کا (کھویا ہوا آدمی، شہر بدری)، قیصر قصریٰ کا (تھوتھو)، احمد سعدی کا(سمجھوتہ)، س۔م ساجدکا (صلیب کے سائے)، قمر عبداللہ کا (دنوں کی صلیب)مندرجہ بالا تمام افسانے سقوط ڈھاکہ اور اس المیے سے جنم لینے والے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں (۳۱)۔
چائنا میں بھی انقلاب آیا مگر اس انقلاب سے اردو افسانہ متاثر نہیں ہوا۔ ایران کے انقلاب کے اثرات فارسی سے اردو ترجمے کی صورت میں اردو افسانے پر مرتب ہوئے۔ہندوستان میں پوکھران اور پاکستان میں چاغی کے مقام پر ہونے والے ایٹمی دھماکوں کا اثر براہِ راست اردو افسانے پر پڑا۔
11 ستمبر سن 2001ءمیں نیویارک کے شہر میں ایک ایسا حادثہ رونما ہوا کہ جس نے پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔نائن الیون کے تمام تانے بانےایک چھوٹے سے ملک افغانستان سے مل جاتے ہیں یہ صحرائی علاقہ کبھی امریکہ کا منظور نظر تھا اور روس کی طاقت کو ختم کرنے اور خود کو واحد سپر پاور منوانے کے لیے اس علاقے کو جنگ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ۔افغانستان میں امریکی قوم نے میں بے یار و مددگار انسانوں پر نازل کی گئی موت بھوک بارود اور خوف کی جو المناک داستان رقم کی ہےوہ اردو افسانے کے زیادہ قریب اور زیادہ جذباتی تھی۔ اس حوالے سے کئی افسانے تخلیق ہوئے جو مزاحمتی ادب کا حصّہ ہیں۔ مسعود مفتی ( شناخت)، افتخار نسیم (پردیسی)،فرحت پروین کے افسانے( بن باس، شاخ آھو، جٹک یارڈ) نند کشور و کرم ( قابلی والا کی واپسی)فاروق سرور کاـ(گنجی چڑیا،جادوگر) رفعت مرتضی ( بنیاد) نیلم احمد بشیر(جو کوئے یار سے نکلے) سلطان جمیل نسیم ( کشمکش)حمید شاہد (گانٹھ،سورگ میں سؤر)عرفان احمد عرفی کا(رئیلٹی شو) امریکہ اور نائن الیون کے پس منظر میں لکھے گئے افسانے ہیں۔ نائن الیون اور افغانستان کے پس منظر میں بھی اردو افسانہ موجود ہے۔مثلا رشید امجد کا (پژمردہ کا تبسم)زاہدہ حنا( کم کم آرام سے ہے،نیند کا زرد لباس ) عطیہ سید (بلقان کا بت)پروین عاطف( اینڈ آف ٹائم) فرخ ندیم ( چودھویں رات کی سرچ لائٹ)افغانستان پر بمباری اور نائن الیون کی پس منظر میں لکھے گئے عمدہ افسانہ ہیں۔
اردو افسانہ اور فلسطین
مسئلہ فلسطین پر مختلف زاویوں سے نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ سیاسی تاریخی قومی اور ادبی ۔یہ درست ہے کہ فلسطین کا مسئلہ خالصتا انسانی ہے۔اس لیے ہر درد مندشخص کے دل میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین کی پراسرار اور مقدس سرزمین اپنے مذہبی عناصر کی وجہ سے بھی مسلمانوں کے لیے کشش رکھتی ہے ۔تاریخی اور سیاسی میدان سے ہٹ کر اگر ادبی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کے اہل قلم نے فلسطین کے مسئلے پر اپنی تخلیقی تحریر ابتدا ہی میں پیش کر دی تھیں۔اردو کے اکثر و بیشتر قلم کار اور شاعر وں نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے فلسطینوں پر ہونے والے مظالم کو بھی اجاگر کیا ہے۔اور اپنی تحریروں میں فلسطین کی حمایت بھی جاری رکھی۔ اردو افسانے نے بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین اردو ادب بالخصوص افسانے کا موضوع بنا تو کئی پہلوؤں سے اہل قلم کو متاثر کر گیا ۔سب سے اہم پہلو تو اس کا مذہبی اور روحانی حوالہ بنتا ہے۔ انتظار حسین نے اپنے افسانے(کانا دجال،اور شرم الحرم)میں فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔تاریخی حوالے سے مظہر الاسلام کا (زمین کا اغوا)بھی فلسطین کے پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔مصطفی کریم کا (تاریخ کا سبق)، اسد محمد خان کا (یوم کپور)یونس جاوید کا ( دوسری بلا)، مصطفی شاہد (خون) جمیل احمد عدیل( اے یروشلم کی بیٹیوں)قدرت اللہ شہاب کا( اے بنی اسرائیل) قرۃ العین حیدر ( یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے)سلمی اعوان کا (او! غزہ کے بچوں) عطیہ سید کا افسانہ( بنتِ اسرائیل)میں مسئلہ فلسطین کے سیاسی، سماجی اور جنگی پہلوؤں کی بھر پور عکاسی موجود ہے۔
اردو میں فلسطینی افسانوں کے ترجمےبھی کیے گئے۔ جن میں نامور افسانہ نگاروں کے نام موجود ہیں مثلا انتظار حسین، مسعود اشعر، آصف فرخی ،حمید شاہد، اور کئی دوسرے ۔ فلسطین کے حوالے سے ادبی پرچوں میں گوشے مختص کیے گئے اور فلسطین نمبر نکالے گئے ۔مثلا دنیا زاد کے دو نمبر،’’ عاشق من الفلسطین‘‘( نمبر ایک اور نمبر دو) خاصے معروف ہیں۔ سن 2024 میں’’ ادبیات‘‘ کے بھی دو نمبر شائع ہوئے ہیں۔جس میں فلسطین کے موضوع پر کئی افسانے شامل ہیں۔ادبیات کے فلسطین نمبر جلد اول میں محمود احمد قاضی( دھبا)حنیف باوا( غزہ کی ایک ماں) سید ماجد شاہ (مٹی کو کیا جواب دوں گا) منیر احمد فردوس( میری گڑیا کہاں ہے)حمزہ حسن شیخ (چڑیا گھر)احسان اللہ لاشاری( جنگ زدہ محبت)قرۃ العین خرم ہاشمی (ادھوری ممتا) سعدیہ رحمن کا (کھلے پانی کی وحشت)صابر فیاض ( زیتون کا باغ) محمد نجیب پاشا (احساس زندگی)حمزہ ابن وسیع( موسی فلسطینی) رفیق زاہد کا ( کون کس کی تلاش میں) شمع اختر انصاری
( اللہ کی امانت) شامل ہیں۔ ادبیات جلد نمبر دو میں مشہور فلسطینی افسانہ نگاروں کے افسانوں کے اردو ترجمے شامل ہیں۔ یہ ترجمےشاہد حمید، ستار طاہر، حمزہ حسن شیخ، انعام ندیم، اختر مرزا، فرحین چوہدری، آمنہ بتول، محمد فیصل ڈاکٹر محمد افتخار شفیع نے کیے ہیں۔ تراجم میں شاہد حمید(اداس نارنگیوں کا دیس)ستار طاہر ( سعد کی ماں) حمزہ حسن شیخ ( مطلوب بھیڑیں) انعام ندیم( ٹن کی گیند) اختر مرزا ( تمہارا بچہ)ستار طاہر ( خطاب یافتگان،اور،خود دار لوگ) فرحین چوہدری( بوتل میں تیرتی محبت)آمنہ بتول( دوسرے شہر،ام کلثوم نصف شب کو) محمد فیصل( جوتے) ڈاکٹر محمد افتخار شفیع( ایک اچھے شہری کی موت، انسداد دہشت گردی کی عدالت) شامل ہیں۔
فلسطین کے موضوع پر جہاں سوشل میڈیا نے عوام کو فلسطین کے مسائل کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے وہیں لوگوں کو کبوتر کی طرح خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ اب لوگ سوشل میڈیا پر فلسطین کےمظلوم لوگوں اور اسرائیل کی بربریت کو دیکھ کر دل میں درد محسوس نہیں کرتے۔ نہ ہی وہ فلسطین کے موضوع پر اس طرح قلم اٹھانے کے لیے تیار ہیں کہ جیسے ان سے قبل افسانہ نگاروں نے لکھا۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس دور کا سب سے بڑا اور اہم موضوع مسئلہ فلسطین ہے جہاں اسرائیل کی ظلم و بربریت کی داستان جاری و ساری ہے اور مظلوم فلسطینی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ افسانہ نگاروں کو مسئلہ فلسطین پر لکھنے کی ترغیب دی جائے تاکہ اردو افسانے کی تاریخ میں مسئلہ فلسطین کی اہمیت اجاگر
کی جاسکے۔ 1948 سے تا حال جاری فلسطین کی جنگ پوری دنیا کے لیے ایک مسلسل کرب کا باعث ہے اس لیے اردو افسانے میں اس کی بہترین نمائندگی ہونا ضروری ہے ۔
عصرِ حاضر اور اردو افسانہ
اردو افسانے کا ایک اور اہم مسئلہ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا استعمال بھی ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے افسانے کے معیار میں فرق آتا جا رہا ہے۔ پہلے ایک قلم کار لکھنے سے قبل بڑے افسانہ نگاروں کے افسانوں کا مطالعہ کیا کرتا تھاپھر قلم اٹھانے کی جرأت کیا کرتا تھا۔ مگر اب افسانہ نویسوں کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ قلم سے لکھے گئے افسانوں کے مسودے میں کئی کئی دفعہ ترامیم ہوا کرتی تھیں۔ اب موبائل اور لیپ ٹاپ کا دور ہے افسانہ نگار افسانہ ، براہ راست موبائل یا لیپ ٹاپ پر ٹائپ کرتا ہے یا پھر کمپوزنگ کے لیے اسپیک ٹو ٹائپ یا وائس ٹائپنگ کے سافٹ ویئرز کو استعمال کرتا ہے۔ اس افسانے کو دوبارہ پڑھے بنا ، اس کی غلطیاں دور کیے بغیر شائع ہونے کے لیے ای میل کردیتا ہے ۔جس کی وجہ سے کمپوزنگ اور املا کی اغلاط کے ساتھ ساتھ، زبان و بیان کی غلطیاں بھی عام نظر آتی ہیں۔افسانہ نگاراگر آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا استعمال کرتا ہے تو اس کو افسانے کے مختلف حصے فوری طور پر لکھے ہوئے مل جاتے ہیں جس کے اثرات واضح طور پر موجودہ دور کے اردوافسانے پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ پہلے دور کے لکھے گئے افسانے میں لفظیات، زبان و بیان ،واقعات کاتسلسل ،کردار، مکالمے اور پلاٹ ہر چیز انتہائی جاندار ہوا کرتی تھی۔ جب کہ آج افسانہ نگار کی عجلت پسندی نے افسانے کے افسانوی رنگ کو کھو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی کےآغاز سے قبل ہی افسانہ ختم ہوجاتا ہے۔اکثرافسانہ نگار واقعات کو اس طریقے سے بیان نہیں کر پاتاجس کی ضرورت تھی۔ موجودہ دور کے افسانہ نگاروں کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔آج ایک نقاد کسی افسانہ نگار کے افسانے پر تنقید کرتا ہے اور اس کےافسانے کے کسی پہلو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کسی کمی یا خامی کی طرف اشارہ کرتا ہے تو افسانہ نگار اس خامی کو دور کرنے کے بجائے تنقید کرنے والے سے ناراض ہو جاتا ہے ۔یہ عمومی جحان ہر طرف موجود ہے۔ جس کی وجہ سے افسانوں اور کہانیوں کے معیار میں کمی آتی جا رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ مائیکروفکشن کے تصور نے بھی اردو افسانے کو بے انتہا متاثر کیا ہے ۔آج کا افسانہ نگار وقت کی قلت کی وجہ سےمختصر لکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کی بنا پر وہ افسانے کا وہ تاثر پیش نہیں کرپاتا جو اس افسانے یا کہانی کا حق ہے۔فی زمانہ افسانے کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افسانہ نگار کا مطالعہ وسیع ہو۔اوروہ مائیکرو فکشن کے بجائے افسانے کو اس کے اصل رنگ میں ہی پیش کرنے کی کوشش کرےتاکہ افسانے کا دیرپا تاثر قائم ہوسکے۔
( نوٹ اس مضمون کو تحریر کرتے وقت ، ڈاکٹر طاہرہ اقبال کی کتاب’’ پاکستانی اردو افسانہ‘‘ اور ’’ ادبیات‘‘ (فلسطین نمبر)کے شمارہ نمبر ۱۳۹، ۱۴۰ سے مدد لی گئی ہے)