اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی):آئین کے آرٹیکل 191A (4) کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی کاتیسرا اجلاس جسٹس امین الدین خان کی زیر صدارت منعقد ہواجس میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور رجسٹرار صاحبان نے شرکت کی۔ آئینی بنچ کے لیے کیس مینجمنٹ کی کارکردگی اور شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے کمیٹی نے کئی اہم معاملات پر غور کیا ۔سپریم کورٹ کے افسر تعلقات عامہ کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق سپریم کورٹ کے رولز 1980 کے آرڈر V رول 3 کے تحت زیر التواء اپیلوں کو جلد نمٹانے کے لیے کمیٹی نے دفتر کو ایک ہفتے کے اندر کیسز کی درجہ بندی، تالیف اور کمیٹی کے ہر رکن کے سامنے روزانہ پانچ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔بڑھتے کام کے بوجھ سے نمٹنے کے لیے کمیٹی نے بینچ کو عدالتی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک قابل سول جج کی سفارش بھی کی۔2023 کے آئی سی اے نمبر 5 (فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے مقدمے) کی سماعت سے متعلق معاملہ پر کمیٹی نے نوٹ کیا کہ جسٹس عائشہ اے ملک، سابقہ بنچ کی رکن ہونے کے ناطے آئینی طور پر ان اپیلوں کے لیے بنچ میں کام نہیں کر سکتیں۔چونکہ اصل آئی سی اے کی سماعت سات رکنی بنچ نے کی تھی، اس لیے کمیٹی نے اس معاملے کی فوری سماعت کو یقینی بنانے کے لیے آئینی بنچ کے لیے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔رجسٹرار کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ جسٹس محمد علی مظہر کی مشاورت سے آئینی بنچ کے عمل اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مسودہ قوانین تیار کریں جس کا حتمی مسودہ کمیٹی کی منظوری کے لیے جائزہ لے گی۔اس موقع پر اجلاس میں کمیٹی نے کیس کی شناخت اور ٹریکنگ کو بہتر بنانے کے اقدامات کےتحت تمام متعلقہ کیس فائلوں کے لیے "آئینی بنچ” کے نشان والے مخصوص سبز مہر کے استعمال کی منظوری دی۔یہ تبدیلی مربوط رنگ کوڈڈ ٹیگنگ کے ذریعے عدالت کے آئی ٹی پر مبنی کیس فلو سسٹم میں بھی ظاہر ہوگی۔ آئینی معاملات کے لیے آرڈر شیٹس کو بھی معیاری بنایا گیا تھا ۔طریقہ کار کی وضاحت کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل 191A کے تحت تمام مقدمات میں ایسے عنوانات شامل ہوں گے جو واضح طور پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے آئینی بنچ سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ایسے مقدمات دائر کرنے والے فریقین کیس کی کم از کم سات کاغذی کتب تیار کر کے جمع کرائیں۔جلد سماعت کے لیے درخواستیں کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں گی جب تک کہ فوری مقدمات کے لیے طریقہ کار کے قواعد کو حتمی شکل نہیں دی جاتی۔کمیٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سپریم کورٹ کو خصوصی طور پر آئین کے آرٹیکل 186 اے کے تحت مقدمات کی منتقلی کا اختیار حاصل ہے اور ایسے معاملات کی باقاعدہ بنچوں کے ذریعے سماعت ہوتی رہے گی۔ صرف آرٹیکل 199 کے تحت ایسے معاملات جن میں اہم آئینی سوالات یا قانون کے اہم مسائل شامل ہیں، آئینی بنچ کو بھیجے جائیں گے۔آپریشنل کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر کمیٹی نے آرٹیکل 191A کے تحت آئینی معاملات کو سنبھالنے کے لیے ایک برانچ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس برانچ میں کیسز کی متناسب کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے موزوں عملہ تعینات کیا جائے گا۔ مزید برآں سپریم کورٹ کی جانب سے آئینی بنچ کو پہلے ہی منتقل کیے گئے مقدمات منظور شدہ روسٹر کے مطابق طے کیے جائیں گے۔