اسلام آباد(نمائندہ خصوصی):سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان نے فلسطین میں اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اسے ‘نسل کشی’ قرار دیا ہے جس سے خواتین اور بچوں سمیت ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔حال ہی میں ریاض میں منعقدہ غیر معمولی عرب اور اسلامی سربراہ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے مسجد اقصی کے تقدس کی خلاف ورزیوں، انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور لبنان میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی مذمت کی اور لبنان کی خودمختاری اور استحکام کے لیے سعودی عرب کی حمایت کا اعادہ کیا۔سعودی ولی عہد نے جارحیت کو روکنے کے لئے عالمی اقدامات پر زور دیا اور دو ریاستی حل کے لئے مملکت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے 1967 کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کیا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔انہوں نے دو ریاستی حل کے نفاذ کے لئے عالمی اتحاد کے ذریعے بین الاقوامی تعاون کو متحرک کرنے کی سعودی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اس بات پر زور دیا کہ مشرق وسطی میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل راستہ ہے۔اجلاس کے بعد خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فلسطین میں بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے عرب اور اسلامی اتحاد پر روشنی ڈالی۔ شہزادہ فیصل نے فوری طور پر کشیدگی میں کمی، اسرائیلی خلاف ورزیوں کے خاتمے، انسانی امداد کی پابندیوں میں نرمی اور اسرائیل پر جارحانہ اقدامات روکنے کے لیے بین الاقوامی دبائو ڈالنے پر زور دیا۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے سیکرٹری جنرل حسین براہیم طحہ نے فلسطین اور لبنان میں اسرائیلی تشدد کو ‘ظلم اور نسل کشی’ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔انہوں نے یو این آر ڈبلیو اے پر حملوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسرائیل کے اقدامات کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی ‘صریح خلاف ورزی’ قرار دیتے ہوئے جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا۔سیکرٹری جنرل حسین براہیم طحہ نے غزہ میں جنگ بندی اور انسانی امداد تک رسائی کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد2735 پر عمل درآمد پر زور دیتے ہوئے فوری عالمی کارروائی کا مطالبہ کیا۔انہوں نے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلا اور غزہ میں فلسطینی حکمرانی کو بااختیار بنانے اور استحکام کے لئے ضروری اقدامات پر بھی زور دیا۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے لبنان کے بارے میں قرارداد 1701 کی پاسداری پر زور دیا اور جارحیت کو روکنے اور ملک کی خودمختاری کے تحفظ کی وکالت کی انہوں نے فلسطینی اور لبنانی حقوق کے تحفظ اور انسانی امداد کو یقینی بنانے کے لئے او آئی سی کے بین الاقوامی مداخلت کے مطالبے کا اعادہ کیا اور بحرانوں کے پرامن حل کے لئے سربراہی اجلاس کے متفقہ مطالبے پر زور دیا۔عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ جبری یا رضاکارانہ نقل مکانی کے ذریعے غزہ میں فلسطینی نسل کشی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات بقائے باہمی کو نقصان پہنچارہے ہیں اور انصاف پر مبنی امن کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے خطے کے 1967 کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے غیر متزلزل مطالبے پر زور دیا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔انہوں نے لبنان میں جاری اسرائیلی بمباری کی بھی مذمت کی جس میں عام شہری ہلاک ہوئے، دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے اور ملک کے موجودہ بحرانوں میں مزید اضافہ ہوا۔ ابوالغیط نے جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کیا تاکہ سرحدی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سربراہی اجلاس سے ایک واضح پیغام جاتا ہے کہ اسرائیلی اقدامات سے علاقائی استحکام اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے۔اجلاس میں ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے او آئی سی، لیگ آف عرب اسٹیٹس اور افریقی یونین کمیشن نے فلسطینی کاز کی حمایت میں مشترکہ کوششوں کو تیز کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور سینئر رہنمائوں کی موجودگی میں ہونے والا یہ معاہدہ عرب، اسلامی اور افریقی ممالک کے درمیان فلسطینیوں کے حقوق کی وکالت اور علاقائی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متحد موقف کی نشاندہی کرتا ہے۔اس معاہدے سے سفارتی اور انسانی ہمدردی کی حکمت عملی کو ہم آہنگ کرنے، دو ریاستی حل پر زور دینے اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر فلسطین کی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فلسطین میں جاری انسانی بحران سے نمٹنے کے لئے مربوط کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔ قرارداد میں فلسطینی کاز کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا گیا اور غزہ، لبنان اور شام میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی اس میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت، مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنانے کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد ریاست کے قیام اور اقوام متحدہ کی قرارداد 194 کے تحت پناہ گزینوں کی واپسی کے حق پر زور دیا گیا۔ قرارداد میں مشرقی یروشلم کو عرب اور اسلامی ممالک کے لئے ‘سرخ لکیر’ قرار دیا اور اپنے عرب اور اسلامی تشخص کے دفاع کا عہد کیا۔ قرارداد میں اسرائیل پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کرنے، اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت معطل کرنے اور فلسطین کی اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت پر زور دیا گیا ہے۔اس میں غزہ، لبنان اور شام کو انسانی امداد کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی جبکہ فلسطینی اتحاد اور غزہ کی تعمیر نو کی حمایت کی گئی۔ ایک اہم قدم کے طور پر قرارداد میں او آئی سی، عرب لیگ اور افریقی یونین کے درمیان سہ فریقی تعاون کے طریقہ کار کا خیرمقدم کیا گیا تاکہ فلسطینیوں کے حقوق کی وکالت کو تقویت ملے۔ قرارداد میں عرب ممالک کی لیگ اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کو قرارداد پر عمل درآمد کی نگرانی سونپنے پر زور دیا گیا۔