ہمارے سماج میں خاص طور شادی عورت کے لیے گویا زندگی کی حٹمی منزل سمجھی جاتی ہے۔ لڑکیوں کی نو عمری میں ہی والدین کو ان کے ہاتھ پیلے کر دینے کی فکر دامنگیر ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے یہاں عموماً بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلانے یا انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا تصور مو جود نہیں ہے ۔ گویا ہمارے معاشرے میں عورت پیدا ہی شادی کرنے کے لیے ہوتی ہے ۔ اور پھر بدترین حالات میں بھی اس بندھن کو نبھانا اسی کا فرض اولین ہے ۔ مزید ستم یہ کہ لڑکی کو شادی کے بعد زیادہ تر سسرال میں ہی رہنا پڑتا ہے ۔ جہاں چوبیس گھنٹے اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جاتی ہے ۔اس سے فرمانبرداری کی اس حد تک توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ سسرالیوں کی ہر بات کو بےچون و چرا تسلیم کرے ۔ایسے ماحول میں عورت کی حیثیت کھونٹے پر بندھی کسی بھیڑ یا بکری کی سی ہوتی ہے ۔ اس قسم کی کشیدہ فضا میں ، شوہر کہ جسے اپنی بیوی کی کھل کر حمایت کرنی چاہیے وہ ماں اور بہنوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر چپ چاپ تماشا دیکھتا رہتا ہے ۔ کیا یہ مرد کا فرض نہیں ہے کہ وہ ہر حال میں اپنی زوجہ کی حفاطت کرے؟
جب کوئی مرد اپنی منکوحہ کو تحفظ دینے میں ناکام ہو جاتا ہے تب ایسے المیے جنم لیتے ہیں کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور ظلم کی ان داستانوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تک نہیں ملتے۔
آخر کیا ضرورت ہے ایسے مرد کا گھر بسانے کی جو بیوی کو تحفظ نہ دے سکے؟
عورت کا طلاق لینا طعنہ ہے توکیا گھر بسانے کی کوشش میں جان سے چلے جانا درست ہے ؟
آخر ہم سب خواتین کو ہمیشہ شادی کے بندھن کو نبھانے کی تلقین کیوں کرتے ہیں ؟ کہ بیٹی کا شادی کے بعد سسرال سے جنازہ ہی اٹھے؟ بھلے سسرال والے اسے جان سے ہی ماڈالیں مگر طلاق تو ہمیں کسی صورت میں قبول نہیں۔ آج ایک زارا گھر بساتے بساتے اپنی جان سے چلی گئی ۔اور نجانے کتنی ایسی زارا ہوں گی جو زندہ لاشیں بن کر شادی کا بندھن نبھا رہی ہیں۔ خدا را اپنی بیٹیوں کو بچائیں ۔ انہیں بے قدرے اور سنگدل سسرالیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ ورنہ ایک کے بعد ایک زارا ایسی قتل گاہوں میں بھینٹ چڑھائی جاتی رہے گی ۔