بیجنگ:
ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں چینی وبائی ماہرین نے کہا ہے کہ امیر ملکوں نے خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ کورونا ویکسین خرید کر ذخیرہ کرلی، جس کی وجہ سے اب تک کورونا وائرس کے متعدد نئے ویریئنٹس اور کووِڈ 19 وبا کی کئی نئی لہریں وجود میں آچکی ہیں۔
’’نیچر ہیومن بیہیویئر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیقی رپورٹ میں چینی سائنسدانوں نے کووِڈ 19 کے وبائی پھیلاؤ اور ویکسی نیشن سے متعلق کمپیوٹر ماڈلز (سمیولیشنز) استعمال کرتے ہوئے ان سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ امیر ممالک کووِڈ ویکسین بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرنے کے بجائے اس کا صرف 46 فیصد حصہ غریب اور کم آمدنی والے ملکوں کو عطیہ کردیتے تو کورونا وائرس کے نت نئے ویریئنٹس بھی اتنی تیزی سے وجود میں نہ آتے۔
کووِڈ 19 وبا کے عالمی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف امیر ممالک اپنی 70 فیصد آبادی کو مکمل طور پر ویکسین لگاچکے ہیں لیکن غریب ملکوں میں اب تک صرف 4 فیصد آبادی ہی کی ویکسی نیشن مکمل ہوسکی ہے جو ایک تشویشناک بات ہے۔
واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور غریب ممالک کو مفت کورونا ویکسین فراہم کرنے کےلیے ’’کوویکس پروگرام‘‘ کے ذمہ داران نے کئی بار امیر ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کووِڈ ویکسین ذخیرہ کرنے کے بجائے غریب ممالک کو عطیہ کردیں تاکہ اس عالمی وبا سے بروقت چھٹکارا پایا جاسکے۔
دوسری جانب مختلف عالمی وبائی ماہرین بھی مسلسل خبردار کرتے آرہے ہیں کہ اگر کووِڈ ویکسین کی تقسیم میں یہ عالمی ناانصافی ختم نہ کی گئی تو نہ صرف کووِڈ 19 کی وبا اسی طرح جاری رہے گی بلکہ کورونا وائرس کے نت نئے ویریئنٹس بھی بہت تیزی سے بار بار سامنے آتے رہیں گے۔
چینی ماہرین کی تازہ تحقیقی رپورٹ بھی ان ہی تمام باتوں کی بازگشت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی وبا سے ’’جب تک ہر کوئی محفوظ نہیں، تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں۔‘‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امیر ملکوں نے خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقتی طور پر وبا کے خلاف فوائد ضرور حاصل کرلیے لیکن غریب ممالک کی انسانی آبادی کےلیے خطرات میں اضافہ کردیا۔
اگر وہ ایسا نہ کرتے تو غریب ملکوں میں کورونا وبا سے مرنے والوں کی تعداد نہ صرف بہت کم ہوتی بلکہ شاید ناول کورونا وائرس (سارس کوو 2) کے اتنے زیادہ ویریئنٹس بھی وجود میں نہ آتے۔
اب تک دنیا بھر سے سارس کوو 2 کے 200 سے زائد ویریئنٹ سامنے آچکے ہیں جبکہ یہ تعداد بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
خوش قسمتی سے اب تک ان میں سے صرف چند ویریئنٹس ہی زیادہ پھیلنے والے ثابت ہوئے ہیں لیکن اگر ویکسی نیشن کے معاملے میں امیر اور غریب ملکوں کا فرق اسی طرح برقرار رہا تو خدشہ ہے کورونا وائرس کے مزید نئے اور کہیں زیادہ خطرناک ویریئنٹس بھی سامنے آسکتے ہیں۔