لاہور اور اسکے گردو نواح میں اسموگ کی صورتحال روز بروز مزید بگڑتی جا رہی ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ صورتحال نے پنجاب کی حکومت کو انتہائی اقدامات لینے پر مجبور کر دیا ہے جس نے صوبے کے اٹھارہ اضلاع میں بارہویں کلاس تک تعلیمی ادارے بند کر کے کلاسیں آن لائن لینے کا حکم دیا ہے، کیوں کہ اگلے چند روز تک مشرقی کاریڈور یعنی بھارت سے ہواؤں کے ساتھ اسموگ میں مزید اضافے کا شدید خطرہ ہے۔ پنجاب کے چار ڈویژن کے سرکاری اور نجی سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری تعلیمی ادارے 7 سے17 نومبر تک بند رہیں گے۔ ایک ہفتے کے لیے پرائمری تک اسکول بند کرنےکا پہلے ہی اعلان کیا جاچکا ہے۔
اس کے علاوہ لاہور، گجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان ڈویژنز میں ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ لاہور کے کئی علاقوں میں گرین لاک ڈاؤن پہلے ہی نافذ ہے جو بری طرح ناکام رہا جس کی وجہ عوام کی طرف سے حکومتی اقدامات اور احکامات کو نظر انداز کرنا ہے۔ اس سے متعلق گرفتاریاں اور جرمانے بھی جاری ہیں۔خطے میں اسموگ کی اس بدترین صورتحال کی وجہ سے بھارت کے دارالحکومت دہلی اور پاکستان کے بھارت کی سرحد پر واقع تاریخی شہر لاہور میں پہلی پوزیشن کے لئے مقابلہ جاری رہتا ہے، کبھی لاہور پہلے نمبر پر تو کبھی دہلی۔ تاہم لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس گزشتہ ایک دو روز سے ایک ہزار سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔
اسموگ کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے بھارت کے ساتھ ماحولیاتی یا اسموگ ڈپلومیسی کا عندیہ دیا تھا تاہم تادم تحریر پتہ نہ چل سکا کہ اس حوالے سے کوئی عملی اقدام بھی ہوا یا نہیں۔ البتہ پنجاب کے ماحولیاتی تبدیلیوں کے صوبائی سیکریٹری راجہ جہانگیر انور نے سی این این کو ضرور بتایا کہ انہوں نے بھارت حکام کو اس حوالے سے خط کا متن تیار کر لیا ہے کیوں کہ ہمارے شہریوں کی زندگیوں کو بھارت کی طرف سے آنے والی آلودہ زہریلی ہواؤں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں، جس کے لئے دونوں ممالک کو اس مسئلے پر ماحولیاتی سفارتکاری کے دروازے کھولنے ہونگے۔
پاکستان تسلسل کے ساتھ یہ الزام لگاتا ہے کہ موسم سرما میں چندی گڑھ اور امرتسر کی طرف سے کسان جو فصل کی کٹائی کے بعد باقیات کو جلاتے ہیں اس کی وجہ سے لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں اسموگ پھیل جانے کی وجہ سے نہ صرف زندگی معطل ہو جاتی ہے بلکہ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں گلے میں خرابی، آنکھ، ناک، کان اور سانس لینے میں مشکل جیسی بیماریاں بھی پھیلنے لگ جاتی ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب کے مطابق اکتوبر کے آخری ہفتے میں پنجاب بھر میں آنکھ کے انفیکشن کے 55 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جس میں سے 7 ہزار کیسز لاہور میں رپورٹ ہوئے۔
میں اپنے پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ موسمیاتی ماہرین جو پنجاب، خاص کر لاہور میں اسموگ کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، انکے مطابق لاہور میں اسموگ میں ہر سال 10فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بدترین صورتحال اکتوبر سے جنوری تک برقرار رہتی ہے۔اسکی وجہ صرف فصل کی باقیات کو جلانا ہی نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہے جس میں پیٹرول اورٹرکوں، بسوں اور ویگنوں میں ڈیزل کا جلنا، درختوں اور زرخیز زرعی زمینوں کو ختم کر کے ہاوسنگ سوسائٹیاں بنا بنا کر ان میں کنکریٹ کے کھیت اگانا اور دوسری وجوہات شامل ہیں۔ جب کہ حکومتیں ہیں کہ عملی اقدامات لینے کے بجائے سطحی قسم کے اقدامات اٹھا کر وقت ٹالنے کی کوشش کرتی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پاک بھارت ماحولیاتی سفارتکاری کی کامیابی کے کوئی امکانات ہیں یا نہیں؟
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ تادم تحریر پنجاب کے سیکریٹری ماحولیات کی طرف سے خط کا متن تو تیار بتایا جاتا ہے پر اسکی کوئی وضاحت نہیں کہ خط کب تک بھارتی حکام تک پہنچا دیا جائے گا۔ صوبے کی وزیر اعلی مریم نواز اس وقت جنیوا گئی ہوئی ہیں شاید واپس آکر بھارت سے اسموگ کی صورتحال پر بات چیت کے لئے عملی اقدامات کریں۔اس وقت اسموگ کے باعث ہزاروں افراد لاہور اور دیگر شہروں میں ناک، گلے، آنکھوں اور سینے کے امراض میں مبتلا سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں زیر علاج متوسط اور غریب طبقات ناکافی سہولیات اور رش کی وجہ سے بری طرح متاثر ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد سے اب تک دو طرفہ امور پر بات چیت کا سلسلہ معطل ہے، کیوں کہ بھارت کا الزام ہے کہ ان حملوں میں پاکستان ملوث ہے جس کی پاکستان تردید کرتا ہے۔ جولائی 2015 میں پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم نواز شریف اور نریندرمودی کے درمیان روس کے شہر اوفا میں برکس کانفرنس کی سائیڈ لائینز پر دو طرفہ امور پر بات چیت کے بعد مختلف امور پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ضرور ہوا تاہم وہ مذاکرات کبھی شروع نہ ہو سکے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ماحولیاتی تبدیلیوں اور اسں کے اثرات کے حوالے سے متعدد سمجھوتے ہیں جن میں1960کا انڈس واٹر ٹریٹی، 1995 کا ماحولیاتی تحفظ کا سمجھوتہ، سمندری آلودگی سے نمٹنے کا سن 2000 کا پروٹوکول اور 2011 کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی یاداشت شامل ہیں۔ اسکے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے حوالے سے دیگر تعاون کے پروگرامز اور فورمز بھی ہیں جن کا سہارا لیکر اسموگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر دونوں ملک قابو پا سکتے ہیں۔تاہم دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تناؤ، اعتماد میں وسیع خلیج، محدود اداراجاتی قابلیت اور وسائل کی کمی، ماحولیاتی خرابیوں کے حوالے سے ناکافی ڈیٹا کے تبادلوں اور دونوں ممالک کے درمیان مفادات اور ترجیحات کے تصادم کی وجہ سے نہ صرف سرحدی معاملات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی جیسے معاملات جنکی کوئی سرحد نہیں ہوتی، پر بھی تعاون آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ عالمی یا علاقائی ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیاں وہ مسائل ہیں جو انسانی تحفظ اور ریاستی سیکیورٹی کے لئے شدید خطرات پیدا کر رہے ہیں۔اسموگ یا ماحولیاتی تبدیلیوں اور آلودگی پر بات چیت تعاون کے وہ معاملات ہیں جن پر موثر بات چیت کر کے دونوں ہمسایہ ممالک دنیا میں ایک نئی مثال قائم کر سکتے ہیں۔دو جنگیں لڑنے، کارگل تصادم، کشمیر اور سیاچن اور دوسرے حل طلب مسائل کے ہوتے ہوئے اور دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ماحولیاتی آلودگی جیسے خطرناک مسئلے کے حل کے لئے تمام اختلافات پس پشت ڈال کر، مشترکہ حکمت عملی اپنا سکتے ہیں اور اس سے لڑ کر اپنی آبادیوں کو سسک سسک کر مرنے سے بچا سکتے ہیں