شہر اقتدار کے ایک بڑے صحافتی ادارے میں دو افراد کام کرتے ہیں، جن کا تعلق بھٹی قبیلے سے ہے۔ ان میں سے ایک، ارشاد بھٹی، کچھ سال قبل پاکستانی ٹی وی اسکرینز پر نمودار ہوئے اور "آگیا اور چھا گیا” کی مثال بن گئے۔ ان کی صحافتی شہرت اس تیزی سے بڑھی کہ انہوں نے پاکستانی صحافت میں اپنا الگ مقام بنا لیا۔ ان کے پس منظر کے بارے میں کم لوگ واقف ہیں؛ کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے کسی ہوٹل میں پبلک ریلیشننگ کرتے تھے اور آرمی کے سابق سربراہ جنرل باجوہ سے تعلقات رکھتے تھے۔ ان کی زبان کی روانی اور چرب زبانی کی بدولت انہیں عمران خان کے پروجیکٹ کے لیے چُنا گیا، اور یوں وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے اور ان کے حق میں بولنے میں مصروف ہو گئے۔
اب خبریں ہیں کہ وہ سیاسی ہوا کا رخ بھانپ چکے ہیں اور کبھی کھلے الفاظ میں، کبھی محتاط انداز میں عمران خان اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود، اسی صحافتی ادارے میں بطور سینئر تجزیہ نگار روزانہ پروگرام کرتے ہیں اور اپنی زبان کی چمک اور تجزیاتی مہارت سے لوگوں کو محظوظ کرتے ہیں۔ ارشاد بھٹی صاحب کروڑوں روپے کی لینڈ کروزر میں دفتر آتے ہیں، کچھ وقت کیمرے کے سامنے گزارنے کے بعد خود یا اپنے ڈرائیور کے ساتھ روانہ ہو جاتے ہیں۔
عوام کی اکثریت کے لیے وہ پاکستانی صحافت کا چہرہ بن چکے ہیں۔ ان کے بارے میں لوگوں کا تاثر یہی ہے کہ صحافی وہ شخص ہوتا ہے جس کے اصول وقت کے ساتھ بدلتے ہیں اور جو بدلتے حالات کے تحت حکمرانوں کے حق میں یا خلاف اپنی رائے کو ڈھال لیتا ہے۔ نتیجتاً، یہ عوام میں اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ صحافی جلد ہی بے تحاشہ دولت، قیمتی گاڑیوں اور بینک بیلنس کے مالک بن جاتے ہیں۔
دوسری طرف اسی ادارے میں ایک اور بھٹی صاحب بھی ہیں، جو 1999 میں جامعہ کراچی سے ماس کمیونیکیشن میں فارغ التحصیل ہوئے۔ انہوں نے پی پی آئی نیوز ایجنسی سے صحافتی تربیت حاصل کی اور مختلف بیٹس جیسے ایجوکیشن، کرائم، ڈپلومیسی، لوکل باڈیز، پارلیمنٹ، اور مختلف سیاسی جماعتوں پر رپورٹنگ کی۔ تقریباً 17-18 سال قبل پاکستان کے ایک انگریزی اخبار سے منسلک ہوئے، جہاں مختلف شعبوں کی رپورٹنگ کرنے کے بعد ہیلتھ بیٹ پر کام شروع کیا۔ ان کے پاس فزیالوجی میں بیچلر کی ڈگری بھی ہے، جس کی بدولت انہیں صحت کے مسائل پر زیادہ مہارت حاصل ہے اور وہ مسلسل صحت کے شعبے میں رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
پچھلے 15 سال سے یہ رپورٹر صاحب صبح دفتر سے نکل کر اسپتالوں، ڈسپنسریوں، میڈیکل یونیورسٹیوں اور شہر کی سڑکوں پر معلومات اکھٹی کرتے ہیں اور شام کو خبریں فائل کرنے کے بعد اپنی پرانی گاڑی میں گھر لوٹ جاتے ہیں۔ بطور ہیلتھ رپورٹر، وقار بھٹی کو شعبہ صحت میں شاید چند سو افراد ہی جانتے ہوں کیونکہ انہیں ٹی وی پر پرائم ٹائم میں ماہرین کی طرح اپنی رائے دینے کا موقع میسر نہیں۔ چاہے وہ پاکستان میں منکی پوکس کے سب سے پہلے کیس کی رپورٹنگ کریں یا ملک میں ڈفتھیریا کے پھیلاؤ کی خبر دیں، دل، شوگر، بلڈ پریشر یا پولیو سے متعلق روزانہ عوامی آگاہی کے لیے خبریں فائل کریں، انہیں بس چند ہزار روپے ملتے ہیں، جس میں پچھلے 15 سال میں اضافہ نہیں ہوا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں صرف اینکرز اور سینئر تجزیہ کار ہی صحافت کی پہچان بن چکے ہیں، جبکہ سالہا سال سے محنت سے خبریں فائل کرنے والے کہنہ مشق رپورٹرز کا حال بگڑتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کے طوفان میں جب کہ صحافتی ادارے نام نہاد تجزیہ نگاروں کی باتوں میں مصروف ہیں، وہ اصل رپورٹنگ اور تحقیق کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔