کراچی(رپورٹ:سید جنید احمد)شہرقائد میں بارشوں سے ڈھائی کروڑ شہری متاثر،ہزاروں گھروں میں برساتی پانی کے ساتھ گٹر کا پانی داخل ہو گیا،عیدقربان کی خوشیاں ماند پڑ گئیں انتظامیہ کی کوشیشوں کے باوجود حالات قابو میں نہ آسکے،شہریوں کا حکمراں جماعتوں پر لفظی گولا باری،نکاسی آب کےاربوں روپے کارکردگی بہتر نہ کرسکے ـ گٹر کے ڈھکن نہ ہونےاورسڑکوں پر کھڈوں نے شہریوں کی زندگیاں چھین لیں اور معذور ہوگئے، امسال بھی ابر رحمت انتظامیہ کی ناقص انتظامات سے عذاب کا منظر پیش کرنے لگی ـ شہری بھپر گئے سوشل میڈیا کے ذریعےحکومت سندھ،پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم پاکستان پر نااہلی،کرپشن کے الزامات کا سلسلہ جاری ہےـ
متعدد رہی سہی سڑکیں بارشوں میں بہہ گئیں تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں عید قربان سے قبل اور عیدقربان کےدو روز کہیں تیز کہیں ہلکی بارشوں نے شہر قائد کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا،رہائشی آبادیاں غلاظت،کھنڈرات اورتالاب کا منظرپیش کرنے لگیں،ملیر ندی، ٹھڈو ڈیم اور حب ڈیم کے برساتی پانی نے قریبی آبادیوں کو ڈبو کر رکھ دیا، کیماڑی،رنچھوڑ لائن،نیو چالی،اردو بازار،کے ایم سی ہیڈ آفس،لائٹ ہاوس،بولٹن مارکیٹ،لیاری،بلدیہ ٹاون،صدرایمپریس مارکیٹ، سٹی کورٹ،سپریم کورٹ، جمشید کوارٹر،گارڈن ایسٹ،ویسٹ، محمودآباد،چینیسر گوٹھ، کراچی ایڈمنسٹریشن، پی ای سی ایچ ایس،نرسری اسٹاپ،اللہ والا ٹاون،قیوم آباد، مہران ٹاون،کورنگی،لانڈھی، اسٹیل ٹاون، سعودآباد، ماڈل کالونی، کھوکھراپار،اسکیم ۳۳،گلستان جوہر،گلشن اقبال،فیڈرل بی ایریا،لیاقت آباد،ایف سی ایریا،سرجانی،خداکی بستی، نارتھ کراچی،نیو کراچی،شاہ فیصل، اورنگی، منگھوپیر،جعفرطیار، ملیر سٹی، ڈیفنس، کلفٹن سمیت تمام ہی کمرشل، رہائشی آبادیوں میں نکاسی آب کا نظام نہ ہونے سے برساتی پانی تالاب کا منظر پیش کرنے لگا ہے، بیشتر علاقوں میں برساتی پانی گھروں میں داخل ہو گیا،عید کے تینوں دن شہری برساتی پانی کی نکاسی کیلئے بلدیاتی اداروں سے شکایت اور وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپنی مشکلات کی نشاندہی کرتے رہے جبکہ انتظامیہ،بلدیاتی ادارے اور سیاسی بازیگراور وزراء برساتی پانی کی نکاسی کیلئے متحرک نظر آئے تاہم شہریوں کو ریلیف دینے میں یکسر ناکام دیکھائی دیئے،شہرقائد میں سڑکوں کےساتھ برساتی نالوں کاجال نہ تعمیر کیئے جانے سے ہرسال کی طرح امسال بھی برسات نے شہریوں کو مشکلات میں گہرےرکھا، ساتوں اضلاع اور ضلع کونسل کے ایڈمنسٹریٹرز کےانتظامات کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئےـ
انتظامیہ اور بلدیاتی عملہ مخصوص سڑکوں تک محدود رہا جبکہ آبادیوں میں عملہ غائب رہا،صرف مخصوص سڑکوں پراپنی کارکردگی دیکھانے میں مصروف دیکھائی دیا، بیشتر مین ہولزپر ڈھکن نہ ہونے اور ادھورے ترقیاتی منصوبے شہریوں کی جان کیلئے خطرہ بنے رہے اور متعدد نہ نظرآنے والے گھڈوں میں گر کر حادثات شکار ہو گئےـ شہریوں نے اپنا غصہ پیپلزپارٹی کےچیئرمین بلاول زرداری،کوچیئرمین آصف علی زرداری،وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، وزراء ناصر حسین، سعید غنی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ذمہ داروں کے نام سے اپنی مشکلات پر مبنی وڈیوز بنا کرسوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے رہے ـ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہر سال اربوں روپے انفراسٹرکچر کی بہتری اور برساتی نالوں کی صفائی کیلئے مختص بجٹ کہاں چلا جاتا ہےورلڈ بینک سے بھی ڈالرذ ملے وہ کہاں جا رہےہیں؟شہریوں کا کہنا ہےکہ شہری حکومت کے خاتمے کے بعد سے انفراسٹرکچر میں بہتری کے بجائے مذید ابتر ہوتی جارہی ہے ہر سال برسات شہریوں کیلئے عذاب بنی ہوئی ہے، ڈھائی کروڑ سے ذائد آبادی ہر سال بارشوں کا مزہ لینے کے بجائے مشکلات میں مبتلا ہو جاتی ہے جبکہ انتظامیہ بارشوں سے قبل انتطامات مکمل ہونے کے دعوے ضرور کرتی ہے تاہم بارشیوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اداروں کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیتی ہے ـ