لاہور کے سنئیر صحافی جناب جاوید اقبال نے جس "عقابی نظر” سے لاہور پریس کلب کے کتاب میلے میں کتابوں کے گمنام عاشق کو ڈھونڈ نکالا وہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔کتابوں کا کوئی عقیدت مند ہی ایسی "نشان دہی”کرسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے واضح کیا کہ گمنام کتاب بین کا واقعہ لکھنے کا مقصد یہ کہ خدانخواستہ ہمارے معاشرے میں کتاب بینی کی عادت کا ختم ہونا ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔۔۔۔ سرکار یا کتاب دوست احباب کو آگے بڑھ کر ایسے لوگوں کے لیے ایسی جگہیں فراہم کرنی چاہئیں، جہاں یہ لوگ بنا کسی شرمندگی کے اپنی علمی پیاس بجھا سکیں۔۔۔ایسی جگہیں علم کے فروغ کا صدقہ جاریہ بن سکتی ہیں، اور یوں شاید ہم کتاب دشمنی ایسی معاشرتی بے حسی کا تدارک کر سکیں جس کا ہم آج شکار ہیں۔۔۔۔جاوید اقبال صاحب نے کتاب بینی کے فروغ کے لیے کچھ قابل قدر تجاویز بھی پیش کی ہیں۔۔۔۔انہوں نے ڈائریکٹر جنرل پنجاب پبلک لائبریریز، کاشف منظور صاحب سے درخواست گزاری ہے کہ ادب دوستی اور کتابوں سے محبت کی ترویج کے لیے آگے بڑھیں اور کوئی ایسا بندوبست کریں کہ گلی محلوں تک علم کی روشنی پہنچائی جا سکے۔۔۔۔یونیورسٹیز کے شعبہ لائبریری کی وساطت اور مخیر حضرات کے تعاون سے ایسی کتابیں اور رسائل، جو اکثر چند پیسوں کے عوض ردی میں بیچ دیے جاتے ہیں، یہ کسی کے خواب بھی ہو سکتے ہیں، انہیں خرید کر مخصوص مقامات یا دکانوں پر دستیاب کرایا جائے، جہاں سے لوگ انہیں مستعار لے کر اپنی علمی پیاس بجھا سکیں۔۔۔اس سلسلے میں پرانی کتابوں، رسالوں کی ردی میں فروخت پر پابندی لگانا بھی کارگر ثابت ہو سکتا ہے تاکہ ان کا رخ بک کلبز کی طرف ہو سکے۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ایک تجویز یہ بھی دی کہ ہم علم کی روشنی بکھیرنے کے لیے "بک کلبز” قائم کریں جو گلی محلے، مساجد، اسکولوں اور کالجوں میں ہوں، جہاں والدین اور بچے دونوں ممبر بن سکیں اور ممبر کے لیے لازم ہو کہ وہ ہر ماہ ایک کتاب پڑھے اور باقی کلب کے ممبران کے ساتھ اس کتاب پر روشنی ڈالے تاکہ یہ شمع دور تک پھیلا سکے۔۔۔۔ یہی بک کلب ممبران شادی بیاہ اور سالگرہ کی تقریبات وغیرہ میں کتاب کو بطور گفٹ دینے کی روایت بھی ڈالیں۔۔۔۔۔۔یہاں لوگ اپنی ذاتی کتابیں لائیں اور دوسروں کے لیے چھوڑ دیں، شعبہ لائبریری کے طلباء اور سماجی کارکن اس عمل میں تعاون کریں، تاکہ ہر کلب علم کا مرکز بن جائے۔ یہ بک کلبز ہمیں کتاب سے بچھڑا ہوا تعلق دوبارہ جوڑنے میں مدد دیں، اور ہمارے معاشرتی وجود کا ایک قیمتی حصہ بنیں۔۔۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کتاب میلے جہاں مختلف بک اسٹالز پر مہنگی اور نئی کتابیں سجی ہوں، وہیں طلبہ اور متوسط طبقے کے قارئین کے لیے بھی ایک پرانی کتابوں کا اسٹال ہونا چاہیے۔ منتظمین کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بڑے پبلشرز کی قیمتی کتابوں کے ساتھ ایک ایسا سادہ سا گوشہ بھی ہو ہاں پرانی کتابیں رعایتا دستیاب ہوں، تاکہ ہر طبقے کے کتاب دوست اپنی دلچسپی اور شوق کو پورا کر سکیں۔۔۔۔۔جاوید اقبال صاحب نے لکھا کہ مطالعے کے شوق کو فروغ دینے اور معاشرے میں علم و ادب کی محبت کو پروان چڑھانے کے لیے چند بامعنی اور دلکش اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔۔۔۔مثال کے طور پر، موبائل لائبریریوں کا قیام ایک مؤثر ذریعہ ہے۔۔۔ کتابوں سے بھری گاڑیاں مختلف علاقوں میں بھیج کر علم کو آسانی سے پہنچایا حجا سکتا ہے۔۔۔۔آن لائن بک کلب اور سوشل میڈیا پر مباحثے بھی قارئین کو قریب لانے کا ایک بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔۔۔ دفاتر میں مختصر لائبریریاں قائم کی جائیں جہاں ملازمین کے لیے روزانہ آدھا گھنٹہ مطالعہ کو لازمی قرار دیا جائے۔۔۔۔مساجد کے علاوہ اسکولوں اور کالجوں میں سالانہ کتابی مقابلے منعقد کر کے طلباء میں مسابقت کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔کتاب عطیہ پروگرام کے ذریعے لوگ اپنی کتابیں عطیہ کر کے نئی کتب حاصل کریں، جبکہ کتب خانہ کیفے لوگوں کو آرام سے بیٹھ کر مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کریں۔۔۔۔بچوں کے لیے کہانی کلاسز، کتاب بطور انعام، اور کتب میلوں میں تخلیقی سرگرمیوں جیسے ڈرامے اور تبصرے شامل کر کے، علم کے چراغ روشن کیے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر آج ہم نے علم کے متلاشیوں کی یہ پیاس نہ بجھائی، تو وہ کل کو بہک کر بے راہ روی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔۔جرائم پیشہ لوگوں کا آلہ کار بھی بن سکتے ہیں۔۔۔۔شاید ان میں کچھ منٹو اور کچھ دائم بھی چھپے ہوئے ہوں، جنہیں صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہو اور وہ کوئی ادبی شاہکار لکھ کر ایک جہان کو روشن کرنے کے لیے بے قرار بیٹھے ہوں!!!