کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی اور سیکرٹری شعیب احمد نے کہا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے موثر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے ۔ صحافیوں کا تحفظ کیے بغیر آزادی صحافت کا تحفظ ممکن نہیں۔ صحافت ملک کا چوتھا ستون ہے اگر چوتھے ستون کو مضبوط نہ کیا گیا تو ریاست عدم توازن کا شکار رہے گی۔انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ازحد ضروری ہے کہ اس معاشرے میں صحافت آزاد ہواور آزاد صحافت صرف اسی معاشرے میں ممکن ہے جہاں صحافت کے علمبرداروں کے تحفظ کو یقینی بنا یا جائے۔صحافیوں کے خلاف جرائم کے لئے استثنیٰ کے عالمی دن پر جاری اپنے بیان میں انہوںنے کہا کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ترقی کے لیے صاف ستھری اور معیاری صحافت ضروری ہے لیکن ا س وقت صحافت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک خطرناک پیہ بن چکی ہے۔بہت سے صحافی جنگ، قدرتی آفات یا دیگر خطرناک علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ قتل کے زیادہ تر مقدمات میں انہیں انصاف نہیں ملتا۔انہوںنے کہا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2006 سے 2024 تک دنیا بھر میں 1700 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ گذشتہ سال سے اب تک 130 سے زائد صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو اسرائیلی فوج گولیوں کا نشانہ بنا چکی ہے۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1992 سے 2024 تک 66 صحافی قتل کئے جا چکے ہیں۔پاکستان میں حکومتی سطح پر صحافیوں کے جان و مال کے تحفظ اور ان کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ملنے والی دھمکیوں اور جعلی مقدمات میں ملوث کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی موثر ادارہ موجود نہیں ہے، سندھ میں 2022 میں سندھ جرنلسٹس پروٹیکشن کمیشن قائم کیا گیا لیکن یہ کمیشن غیر موثر نمائندگی، وسائل کی کمی اور اراکین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تقریبا غیر موثر ہوچکاہے۔سعید سربازی اور شعیب احمد نے کہا کہ پاکستان آج بھی صحافت کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ صحافیوں کو سنسرشپ، تشدد، دھمکیوں، اغوا اور قتل جیسے خطرے درپیش ہیں۔وفاقی اور سندھ حکومتوں نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے جامع قوانین کو قانون کا حصہ بنایا ہے تاہم ان قوانین پر عمل درآمد ہونا اب بھی باقی ہے۔انہوںنے کہا کہ آئین پاکستان آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت اور معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، شفافیت کے فروغ کیلئے آزادی صحافت ناگزیر ہے۔انہوںنے کہا کہ جرائم میں ملوث افراد کو مستشنی قرار دینے کے باعث معاشرے میں مزید جرائم پیدا ہوتے ہیں اور یہ اچھی سوسائٹی کو بہت بری طرح متاثر کرتے ہیں، ان کے اثرات سے نہ صرف عوام بلکہ صحافی بھی نشانہ بنتے ہیں۔سعید سربازی اور شعیب احمد نے کہا کہ کہنے کو تو پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود صحافیوں کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار تشویناک حد تک زیادہ ہیں ۔وفاقی اور سندھ حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے مزید موثر قانون سازی کے ساتھ اس پر عملدرآمد بھی کرائے۔