دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان اور فخر کی علامت ، گیارہ ہزار سے زائد ملازمین ، پاکستان کا بہترین اور مہنگا ترین اثاثہ رہنے والی قومی ایئر لائن PIA تقریباً ہر دور میں ہی سیاسی لوٹ مار کا شکار رہی اس قومی اثاثے کی سربراہی کے لیئے ریٹائرڈ / آن سروس ایئر مارشلز اور دیگر جرنیلز کے ساتھ ساتھ سول قیادت کی تعیناتی بھی ہوتی رہی ۔۔۔اور آج PIA اس نہج پر پہنچا دی گئی ھے کہ موجودہ محدود فضائی آپریشن میں سے نفع کمانے کے باوجود یہ کارپوریشن معاشی بدحالی ، بھاری قرضوں اور شدید خسارے کا شکار بنادی گئی اور رواں سال 2024 میں تین مرتبہ PIA کی نیلامی موخٌر کی گئی ۔۔۔پی آئی اے کی گزشتہ روز ہونے والی حتمی نجکاری کے عمل میں ایئر بلیو ، عارف حبیب کارپوریشن ، بلیو ورلڈ سٹی ، فلائی جناح ، پاک ایتھانول کنسورشیم ، اور Y. B ہولڈنگز کنسورشیم نے پی آئی اے کو خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا ۔۔۔پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کے اثاثہ جات کی ٹوٹل لاگت تو کئی ملین ڈالرز میں جاتی ہے لیکن اس کے صرف 60 ساٹھ فیصد حصص فروخت کے لیئے پیش کیے گئے ۔۔۔راولپنڈی کی ایک پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹی بلیو ورلڈ سٹی نے اس نیلامی میں PIA کی بولی دس ارب روپے لگا کر اس اہم اور قیمتی ترین ادارے کو ایک تماشہ بنا کر رکھ دیا ۔۔۔پی آئی اے کی پاکستان سے لندن کے صرف موجودہ روٹ کی ویلیو 100 ملین ڈالر ہے جو کہ فی زمانہ 28 ارب روپے بنتے ہیں اس کے علاوہ PIA کے پاس اندرون ملک اور بیرون ملک انتہائی مہنگی پراپرٹیز ، ایئرکرافٹ ہینڈلنگ مشینریز ، گراؤنڈ وہیکلز ، ٹیکنیکل ایکوئپمنٹس، انجئیرنگ ڈیپارٹمنٹس ، اور دیگر اثاثہ جات کی مالیت بھی اربوں روپے بنتی ہے جب کہ PIA کے فلیٹ میں اس وقت 33 آپریشنل جہاز شامل ہیں جن میں 17 سترہ A 320 طیارے شامل ہیں اور ایک اے 320 طیارے کی قیمت 120 سے 150 ملین ڈالر ہے، نیا A 320 خریدنا ہو تو اس کی قیمت اس وقت لگ بھگ 30 ارب روپے سے زائد بنتی ہے ۔۔۔ایک بدنام پراپرٹی ڈیلر کی سوسائٹی جس کی ریئل اسٹیٹ انڈسٹری میں یہ تعریف اور پہچان رہی کہ انھوں نے چند سو کنال کا رقبہ خرید کر لاکھوں کنال کے پلاٹس عام پاکستانیوں کو کروڑہا روپوں میں بیچ ڈالے اور آج ان فائلز / پلاٹس کے نام پر چند کاغذی ٹکڑوں کو کسی بھی قیمت پر خریدنے والا کوئی نہیں ۔۔۔
فضائی انڈسٹری کے شعبے سے نابلد پراپرٹی ڈیلر کی ایجنٹ سروسز کو بروئے کار لاتے ہوئے PIA کی دس ارب روپے کی بولی لگانے کا مقصد قومی ایئرلائن کو نہ صرف ڈی ویلیو ثابت کرنا تھا بلکہ ایک عام تاثر کو قائم کرنا تھا کہ PIA تو کچرے کا ڈھیر ھے جس کی صفائی پر مزید خرچہ آئے گا قومی ایئر لائن کی خریداری کے لیئے جن چھ کمپنیز نے پری کوالیفکیشن جمع کروائی تھیں ان میں سے باقی پانچ کمپنیز اس نیلامی میں خاموش اور غیر حاضر کیوں رہیں یہ ایک راز ھے جس کے پیچھے کرپشن بے چینی سے کروٹیں لے رھی ھے اور غالب امکان یہی ہے کہ اگلے مرحلے میں مزکورہ نیلامی کی بولی والے ریفرنس میں معمولی سے فرق کے ساتھ ایک گاہک کی انٹری ہوگی جو اس نام نہاد نیلامی اسٹیج کے پیچھے چھپا ماسٹر مائنڈ اور اصل گاہک ھوگا ۔۔۔
قومی ایئر لائن کے ملازمین میں اپنے ادارے سے محبت کرنے کا جو انوکھا جذبہ پایا جاتا ھے وہ آپ کو کسی دوسرے قومی ادارے میں نظر نہیں آئے گا PIA کے تجربے کار اور قابل افسران کو حکومتی امراء نے ہمیشہ بے اختیار رکھا اگر آج بھی ادارے کے نظم و نسق سنبھالنے کا یہ فیصلہ قابل اور تجربہ کار افراد کے سپرد کردیا جائے تو PIA کو تو فروخت کیئے بغیر سالانہ لاکھوں ڈالرز کے ٹھیکے پر بھی دیا جاسکتا ھے یا کم از کم دنیا کی بڑی فضائی کمپنیز کو بہتری لانے اور سدھارنے کے لیئے ملکیت اپنے پاس رکھتے ہوئے مناسب لیزنگ پر دیا جاسکتا ھے ۔۔۔
سیاسی اور عسکری سربراہان کی شراکت اور ہر بار کے نئے تجربات نے PIA کو ایک اپائج ادارہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔۔
فضائی شعبے کے بین الاقوامی ماہرین کی مدد لینے کے تجربات بھی PIA کو انتہائی مہنگے پڑے اور ہمیں یاد ھے کہ PIA کے ایک جرمن چیف ایگزیکٹو نے تو ہمارا ایک جہاز ہی بیرون ملک بیچ ڈالا تھا اور اس اعلیٰ سطح کی مضحکہ خیز کرپشن میں بھی نامعلوم شخصیات کی وجہ سے پردہ ڈال دیا گیا تھا۔ملکی میڈیا نے بھی اس ادارے کی تباہی اور بدنامی میں انتہائی منفی کردار ادا کیا اور روٹین میں ہونے والے دنیا کی ہر ایئر لائن کی طرح کے انتظامی امور اور دیگر معاملات میں بدنظمی یا بد انتظامی کو باقاعدہ PIA کا نام لے لے کر بدنام کیا جاتا رہا جبکہ دیگر تمام ملکی اور غیر ملکی فضائی کمپنیز کے ایسے معاملات کا نام لیئے بغیر ایک غیر ملکی ایئر لائن یا نجی ایئر لائن بول کر خبریں چلائی جاتی تھیں حالانکہ میڈیا ہاوسز اور سینئر صحافی ہمیشہ قومی ایئر لائن سے مفت یا سستے ترین ٹکٹ بھی لیتے رہے ۔۔۔قومی ایئر لائن کی تباہی میں سیاسی اثرورسوخ ہمیشہ ہی بنیادی وجہ رہا جس میں سیاسی طاقتوں نے اپنی حمایت یافتہ مزدور یونینز کا استعمال کیا۔۔۔گزشتہ سالوں میں پاکستان میں ہوا بازی کے ایک وفاقی وزیر چوھدری سرور نے اپنی من مانی نہ چلنے پر قومی ایئر لائن PIA میں سینکڑوں جعلی پائلٹ موجود ہونے کا بیان دیا جس پر انکوائری کی گئی تو صرف چند سفارشی پائلٹس کی ڈگریوں میں معمولی فرق پایا گیا تاہم ان کی پیشہ وارانہ مہارت میں کوئی کوتاہی نہیں دیکھی گئی۔اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئیر سیاستدان اور اس وقت کے وفاقی وزیر کے اس غیر زمہ دارانہ اور احمقانہ انکشاف کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کو کئی ارب روپے مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ قومی ایئر لائن کو اس خسارے میں نہ صرف اپنے قرضے اتارنا مشکل ہوگئے تھے بلکہ کئی ارب روپے کے مزید قرضے چڑھے یورپ نے پاکستانی جہازوں کے لیئے روٹس اور آپریشنز بند کروادیئے تھے ۔بین القوامی ایئر لائنز میں پاکستانی پائلٹس کی بھرتیاں روک دی گئیں اور انگلینڈ نے تو اپنی فضائی حدود سے گزرنے پر بھی پابندی عائد کردی تھی وہ وزیر موصوف اور دیگر ہر زمہ دار شخص تو آج اپنی زندگی کو آرام سے انجوائے کرھے ہیں لیکن ملک اور قوم کے قیمتی اثاثوں کے ساتھ کیئے جانے والے یہ غیر زمہ دارانہ رویے اور گھناؤنے فیصلے لامحالہ عام پاکستانی کے لیئے انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ بہت مہنگے ثابت ہوئے ۔۔۔