کراچی(رپورٹ۔ اسلم شاہ) سندھ حکومت نے چار سال کی تاخیر کے بعد اکاونٹ آفیسر بلدیہ عظمی کراچی افاق سعید (BPS-19)کو کراچی کے نالو ں کے متاثرین کی آبادکاری کے لئے پروجیکٹ ڈائریکٹر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی تعینات کردیا ہے۔ وہ اتھارٹی میں ممبر فنانس کی خالی عہدے پر بھی فرائض ادا کریں گے۔ ان کا حکمنامہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری بلدیات سندھ نے جاری کیا ہے۔ خط نمبر NO.SO(HTP-II)/MDA/1-1/2024 بتاریخ 28 اکتوبر 2024 کو جاری کیا گیا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو ایک ماہ میں پلان پیش کرنے اور ایک سال کے دوران عملدرآمد کا منصوبہ بنانے کی ہدایت کی تھی۔ پلان کمشنر کراچی کو سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ تین سال تک منصوبے پر عملدرآمد نہ ہوسکا اور سندھ حکومت اس مسئلہ پر جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ اب اچانک نان انجینئر کو پروجیکٹ ڈائریکٹر کی پوسٹ پر تعیناتی سے اتھارٹی اور دیگر حلقے حیرت زدہ رہ گئے ہیں، کیونکہ یہ پاکستان انجینئرنگ کونسل (جس کے ممبر خود وزیر اعلی سندھ بھی ہیں) کے رولز کی شدید خلاف ورزی ہے۔رولز کے مطابق کسی بھی انجینئرنگ پوسٹ پر بی ای انجینئر کے کوئی بھی تعینات نہیں ہو سکتا حتی کہ ڈپلومہ انجینئر کو تعینات نہیں کیا جا سکتا ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ وزیر اعلی خود پی ای سی کے ممبر ہیں لیکن وہ بھی اس تعیناتی سے لاعلم ہے۔ تفصیلات کے مطابق گجر نالہ، محمود آباد اور اورنگی نالوں کے 6 ہزار 500 متاثرہ خاندانوں کو تیسر ٹاؤن اسکیم -45، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں آبادکاری کا پلان تشکیل دینے کے لئے چار سال بعد با ضابطہ طور پر پی ای سی کے رولز کے برخلاف ایک پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تعیناتی کر دی گئی ہے۔ منصوبے کے تحت 500 مربع گز پر مکانات کی تعمیر کا پلان مرتب ہوں گے جبکہ صوبائی حکومت سپریم کورٹ میں پہلے ایک پلان جمع کرائے گئی۔ نالوں کے متاثرہ خاندانوں کے لیئے نئے پلان کے تحت دو کمروں کے علاوہ تمام سہولیات کی تعمیر 500 مربع فٹ پر ہر یونٹ کے احاطے کے ساتھ کی جائے گی جس پر 9 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ اضافی سولر پینل اور دیگر سہولیات میں فی گھرانے پر ڈیڑھ لاکھ روپے اور منصوبے پر مجموعی لاگت کا اندازہ 6 ارب 82 کروڑ 50 لاکھ روپے لگایا گیا تھا لیکن اب چار سال کی تاخیر سے منصوبے پر لاگت میں تین سو گنا اضافہ ہونے کا قوی امکان ہے۔ منصوبے پر 18 سے 20 ارب روپے تک تجاوز کرنے کی توقع ہے۔ تین نالوں کی تجاوزات کو پہلے ہی ہٹا کر تکمیل ہوچکی ہے۔ متاثرین کو فی خاندان تین لاکھ 60 ہزارروپے بھی مالی امداد دی گئی ہے، یہ رقم ماہانہ کرایہ کی مد میں دی گئی تھی۔ ان متاثرین کی آبادکاری اور نالوں کی تعمیرات پر وفاقی حکومت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے پہلے ہی پانچ ارب سے زائد فنڈز خرچ کر چکی ہے۔ FWO اور NLC کو نالوں کی تعمیرات کا ٹھیکہ براہ راست دیدیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت کے ساتھ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی تین نالوں پر تجاوزات کو ختم کرنے اور تعمیرات کا کام کر رہی ہے، وہ بھی فنڈز کے اجراء میں تاخیر کے باعث مکمل نہ ہوسکا جبکہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پلان کے مطابق متاثرہ خاندانوں کو دو کمروں کے گھر کے پلیٹ سائز 24 فٹ سے 30 فٹ کے لیے آرکیٹیکچرل ابتدائی پلان تیار کیا گیا ہے جس میں پیرامیٹرز کے ساتھ کراس وینٹیلیشن، واش رومز 6 فٹ سے 8 فٹ جس کے عقب میں ڈکٹ کے ساتھ اور دو کمروں کے پیچھے سائز 10X12 فٹ، برآمدہ اور کچن 10 فٹ بذریعہ 24 فٹ کے علاوہ کھلے صحن کے ساتھ مین گیٹ کی فراہمی ہر یونٹ کی پہچان ہے۔ مزید یہ کہ اگر ممکن ہوا تو چار یونٹوں کی چھتیں مل جائیں اور سڑک کے قریب جگہ کا انتخاب اور اس کے علاوہ پینے کا پانی، ہر یونٹ کے قریب دستیاب سیوریج ڈسپوزل فراہم کیا جائے گا،تقریبا 250 ہاؤسنگ یونٹس 26 بلاک (حفاظتی مقاصد کے لیے دیواروں والی کمیونٹی) اور ایک سیکٹر میں تقریبا 1000 گھر دستیاب ہیں۔ اس منصوبے میں دوہری سڑکوں کی تعمیر ہوں گی۔ 3 ایکڑ پر مشتمل بڑے پارکوں کو خاندانوں اور بچوں کے لیے منصوبے میں مختص کیا گیا۔ اسکول کی عمارتیں مکمل اور فرنش کی جائیں گی۔ اس کا انتظام تعلیم سے متعلقہ این جی اوز جیسے ٹی سی ایف کو نگرانی اور چلانے کے لئے دیا جائے گا۔۔صحت کے شعبے میں، ہسپتال کی مناسب عمارت کی تکمیل تک صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تقریبا 6 ایمبولینس فراہم کی جائیں گی۔ فوڈ اسٹریٹ کے لیے زمین بھی مختص کی جائے گی اور 15 حصوں کی لاگت کو شامل کیا جائے گا تاکہ نئے علاقے سے پرانے علاقے تک سبسڈی قیمت پر آمد و رفت فراہم کی جا سکے، بعد میں یہ انتظام نجی شعبہ کرے گا۔ پک اور ڈراپ پوائنٹس کے ساتھ ٹرانسپورٹ کی پارکنگ کے لیے مناسب جگہیں مختص کی جائیں گی۔ شفٹنگ کے وقت، پانی کی فراہمی اور سیوریج کا نظام مکمل ہو چکا ہے۔ ہر بلاک میں رہائش مکمل ہونے کے بعد اندرونی سڑکیں اٹھائی جا سکتی ہیں،تمام مکانات اور اسٹریٹ نمبرز انسٹال اور مرکزی سڑکیں و اپروچ سڑکیں سائٹ پر پانی کی فراہمی اور سیوریج سسٹمز کے ساتھ تعمیر کی جائیں گی۔ اسکولوں کو شفٹ کرنے سے پہلے مکمل کیا جائے گا تاکہ بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو۔ ان اسکولوں میں تعلیم کی ترجیح شفٹ ہونے والے خاندانوں کو دی جائے گی۔دو طرفہ سڑکوں پر نجی شعبے کو نرسریوں کی ترقی اور گرین بیلٹس کی دیکھ بھال کے لیے دیے جائیں گے۔اسٹریٹ سائیڈ، شجرکاری اور ماحولیاتی بہتری کیلیئے یہ جگہیں این جی اوز کو دی جا سکتی ہیں۔ پارکوں اور گرین بیلٹس کو برقرار رکھنے کے بدلے کارپوریٹ سیکٹر کو اشتہار کے لیے سائٹس دی جا سکتی ہیں۔ایم ڈی اے کے زریعے پارکس بھی تیار اور سنبھالے جا سکتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے تین بڑے نالے پر قائم تعمیرات، علاقہ کا نام، مکان کا سروے میں نام، ولدیت، مرد یا عورت،عمر، قومی شناختی کارڈ، دیگر فیملی کے ممبران اور سربراہ کانام، مکان قانونی یا غیر قانونی، لیز یا سب لیز جاری کرنے والے ادارے کا نام،زمین کا رقبہ، کچا یا پکا تعمیرات، پانی بجلی گیس سمیت دیگر سہولیات موجود ہیں یا نہیں، نالے پر تجاوزات زمین کا رقبہ،نالے پر تجارتی خاص طور پر دکان،ورکشاپ، پارکنگ استعمال ہونے والی کی اعداد و شمار کی رپورٹ مکمل ہوچکی ہے۔ انٹریشنل ہیومن رائٹس ارگناءریشن کے ریجنل ڈاریکٹر محسن دررانی کا کہناہے کہ کراچی کے نالون کے متاثرین کو انسانی بنیاد پر مالی امداد اور متبادل گھرون کی فراہمی یقینی بنانے اعلی عدالتو ن کے یدایت پر گذشتہ چار سال سے عملدامد نہ ہونے متاثرین مساءل کا شکار ہے تاخیر سے متاثرین دربدر ٹھوکر کھانے پر مجبور ہے