پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب سابق چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے”پر پرزے” نکالنے کی کوشش کی تو 23۔مئی 2019 ء کی شب سابق وزیراعظم کے ایک معاون کے نجی چینل نے جھنگ کی رہائشی خاتون طیبہ فاروق المعروف طیبہ گل کی سابق چئیرمین نیب کے ساتھ ایک آڈیو لیک نشر کردی۔جس میں دونوں انتہائی بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کررہے تھے۔اس آڈیو نے تہلکہ برپاء کردیا۔جاوید اقبال بھی کچھ دن تک منہ چھپاتے پھرے، پھر اس کے بعد نئے حالات سے مقابلے کیلئے "کمربستہ ” تو ہوگئے لیکن ان کے دعوے ٹھنڈے پڑگئے۔بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس آڈیو کے بعد طیبہ گل کی جاوید اقبال کے ساتھ گلے ملنے والی ویڈیو بھی جلد ہی سامنے آگئی۔اس موقع پر حکومتی کرتا دھرتا کو بے چاری طیبہ گل کو انصاف دلانا چاہئے تھا لیکن اس ” بے چاری” کو انصاف دلانے کے بجائے الٹا یہ معمہ کھڑا ہوگیا کہ یہ آڈیو اور ویڈیو کس نے لیک کی ہے۔اس کا دوشی حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کو قرار دے رہی تھی ۔اس موقع دونوں اپنی صفائیاں پیش کررہے تھے کہ ان کا اس معاملے میں کوئی لینا دینا نہیں۔انکار کی اس تکرار میں ان دنوں موجودہ وزیر داخلہ اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر رانا ثناء اللہ نے جب یہ معاملہ گرم تھا تو طیبہ گل اور اس کے شوہر فاروق نول کو بلیک میلر قرار دیا تھا۔طیبہ گل اس سکینڈل کے بعد وزیر اعظم ہائوس اور پھر جیل کی مہمان نوازی سے فیض یاب ہونے کے بعد گوشہ نشین ہوگئی تھی۔ لگ بھگ تین برس تک انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اپنی زبان نہیں کھولی، حالانکہ چئیرمین صاحب سے جس انداز میں وہ گفتگو کررہی تھی اسے سن کرایسانہیں لگتا کہ ایسی زبان خاموش ہوسکتی ہے۔طیبہ گل خاموش رہی اور یار لوگوں نے بھی کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ طیبہ گل کی فائل پت جمی گرد کی دبیز تہہ کوجھاڑ کر اس کی خبر لی جائے ۔اب جب حکومت تبدیل ہوگئی اور طیبہ گل کو بلیک میلر قرار دینے والے اقتدار میں آبیٹھے ہیں تو طیبہ گل نے عدلیہ کے بجائے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے انصاف مانگ لیا ہے۔ویسے یہ انصاف مانگنے کی بھی اپنی طرز کی انوکھی مثال ہے،جس میں طیبہ گل کو چئیرمین کمیٹی نورعالم خان میں چھپا ہوا کوئی جج دکھائی دے رہا ہے۔طیبہ گل کے خط پر جس طرح پی اے سی کے چئیرمین صاحب کا دل پسیجا وہ بھی قابل توجہ ہے۔ موصوف نے طیبہ گل کو کمیٹی میں طلب کرکے انصاف "بانٹنے” کی ایک نئی مثال رقم کردی ہے۔ یہاں یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ پی اے سی جیسے نام سے ظاہر ہے مالی امور میں بے قاعدگیوں کی جانچ پڑتال کرتی ہے لیکن اس کمیٹی میں بے چاری طیبہ گل پہنچی تو اپنے اوپر گزرنے والے حالات کو بیان کرکے خود بھی روپڑی اور اوروں کو بھی غمگسار کرگئی۔طیبہ گل کے بیان کے چند اقتباسات پیش ہیں تاکہ قارئین بھی تھوڑا ساجذباتی ہوجائیں۔ طیبہ گل نے کمیٹی میں بیان دیا کہ جاوید اقبال کے مطالبات نہ ماننے کی وجہ سے اُن پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے اور گرفتار کر کے برہنہ ویڈیوز بنائی گئیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ’ہمارے پاس سابق چیئرمین نیب کے خلاف طیبہ گل کی جانب سے ہراسانی کی درخواست آئی تھی۔ ہم نے چیئرمین نیب کو نوٹس کیا تھا لیکن وہ خود نہیں آئے لیکن خط بھجوا دیا کہ عید کے بعد آئیں گے۔صاحب کہتے ہیں میں عید کے لیے جا رہا ہوں خالانکہ عید ابھی دور ہے۔‘چیئرمین کمیٹی نے کہا ’میں تو چاہتا ہوں سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کے وارنٹ جاری کر دوں۔بہرحال جب سابق چیئرمین نیب کے معاملے پر بات شروع ہوئی تو طیبہ گل کا کہنا تھا کہ ’میرے خلاف جھوٹا ریفرنس بنایا گیا نہ میری تحقیقات ہوئیں نہ مجھے کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔ اچانک نیب کی ٹیم نے مجھے حراست میں لے لیا۔طیبہ نے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن میں اُن کی جاوید اقبال سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ’میرے شوہر کی چچی لاپتہ تھیں اُس سلسلے میں، مجھے اور میرے شوہرکو لاپتہ افراد کے سربراہ سے ملنا پڑا۔ طیبہ گل نے بتایا کہ جاوید اقبال نے کہا کہ آپ جب تک نہیں آئیں گی میں سماعت نہیں کروں گا۔ میں نے ان کو کہا کہ میرا ہونا ضروری نہیں میں براہ راست متاثرہ فریق ہوں لیکن جاوید اقبال نے کہا کہ میں آپ کی وجہ سے جلدی سماعت رکھ رہا ہوں آپ کو آنا ہو گا۔طیبہ نے بتایا کہ میرا مقصد کسی کو بلیک میل کرنا نہیں بلکہ خود کو ہراساں کرنے کا ثبوت بنانا تھا۔طیبہ نے یہ بات کرکے سب کو دلا دیا کہ جاوید اقبال نے چیئرمین نیب بننے کے بعد کہا کہ میں اب چیئرمین نیب ہوں میں چاہوں تو تمہاری زندگی خراب کر سکتا ہوں۔ اُس دھمکی کے دو دن بعد اسے نیب نے حراست میں لے لیا۔ حراست میں لیتے وقت کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں تھی۔ اس دوران بھی انہوں نے راستے میں میرے ساتھ جو کیا میں بیان نہیں کر سکتی۔‘ طیبہ گل یہ سب بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جب ڈی جی نیب شہزاد سلیم آئے تو میرے کپڑے پھٹ چکے تھے اور میرے جسم پر نیل کے نشان تھے۔‘اس کے بعد مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا، کہا گیا کہ اس عورت کی تلاشی لو میرے کپڑے اتارے گئے وہاں کیمرہ لگایا گیا میرا سب کے سامنے تماشا بنایا گیا۔ مجھے برہنہ کر کے نیب نے میری ویڈیوز بنائیں۔‘یہ کہتے ہوئے طیبہ گل رونے لگ گئی۔ انہوں نے کہا کہ ’اگلے دن جب مجھے عدالت لے کر گئے تو جج نے کہا کہ ان خاتون کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ میرا کوئی میڈیکل نہیں کرایا گیا۔ میری طرف سے خود کاغذ پر لکھا کہ میں میڈیکل کرانا نہیں چاہتی۔ میرے شوہر کا پچاس دن ریمانڈ لیا گیا۔ میری ریکارڈ کی گئی ویڈیو میرے شوہر کو دکھا کر انہیں ذہنی تکلیف دی گئی۔ بعد ازاں میری ہائی کورٹ سے ضمانت ہوئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ میں نے 10 مئی 2019 کو سیٹزن پورٹل میں شکایت درج کرائی اور 21 مئی کو میرے خلاف 40 ایف آئی آر کرائی گئیں۔ طیبہ گل نے کہا کہ چیئرمین نیب والی ویڈیو کا مجھے تو کوئی فائدہ نہیں ملا بلکہ حکومت نے وہ ویڈیو اُن کو دکھا کر اپنے مقاصد پورے کئے۔ طیبہ گل میڈیا میں بیٹھ کر خوب خاک اڑا رہی ہے۔ کوئی اسے بلیک میلر قرار نہیں دے رہا البتہ پتہ چل کے اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کا موقف تھا کہ ’ہمیں جاوید اقبال کو بھی سننا ہو گا کیونکہ یہ قانونی تقاضا ہے۔ مقام اطمینان ہے کہ چیئرمین قانونی تقاضوں کو بھی سامنے رکھ رہے ہیں ۔اس معاملے کا کیا بنے گا یہ بات کچھ وثوق سے تو نہیں کی جا سکتی لیکن یہ سوال ضرور طیبہ گل سے ہونا چاہیے کہ آج وہ اپنا کیس بیان کر کے سابق وزیراعظم اور ریاست مدینہ کے ذکر سے کس کو خوش کر رہی ہے؟ طیبہ گل سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیئے کہ وہ تین برس تک اس ظلم کے خلاف کیوں نہیں چیخی اسے اگر نیب والوں نے برہنہ کیا تھا تو پھر وہ خاموش کیوں بیٹھی رہی؟ اور اگر آج اس نے خاموشی توڑ دی ہے تو کیا آج ملک میں حالات بدل گئے ہیں ؟کیا عدلیہ کی جگہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے لے لی ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے تو پھر ماضی کا ایک واقعہ ذہن میں آگیا جب مرحوم مولانا سمیع الحق نے مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ شدت سے کیا اور یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر اسلامی نظام نافذ نہیں ہوگا تو وہ اسمبلی سے استعفی دے دیں گے۔ ان کی اس دھمکی کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اسلام آباد کی ایک نامی گرامی خاتون میڈم طاہرہ کا انٹرویو چھپا کہ مولانا جنسی تسکین حاصل کرنے کے لئے ان کے یہاں آتے ہیں اور جنسی عمل کی مخصوص کیفیات بھی بیان کیں۔ اس انٹرویو کا چھپنا تھا کہ مولانا کے سارے مطالبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مولانا شریف النفس انسان تھے اوراس خاتون کو جانتے تک نہیں تھے لیکن وہ اس انٹرویو میں لگائے گئے الزامات کا بوجھ نہ سہہ سکے۔ دوسری طرف میڈیامیں مولانا سے متعلق ہر خبر میں ان کے نام کے ساتھ میڈم طاہرہ جڑی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ کسی نے یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ میڈم طاہرہ کا پتہ لگائے کہ اس کے پیچھے کون کار فرما ہے۔ ملک میں ایک بار پھر مسلم لیگ کی حکومت ہے کل کی میڈم طاہرہ تو آج بہت بڑے منصب پر بیٹھی ہے لیکن طیبہ گل کی شکل میں میں آج کی میڈم طاہرہ پر یہ تحقیق کون کرے گا کہ وہ جو ویڈیو ویڈیو بنا رہی تھی جس میں میں چیئرمین نیب اس سے گلے مل رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ چیئرمین نیب اس سے پہلی دفعہ گلے لگارہےہیں یا پھر آڈیو میں چیئرمین نیب جس طرح چومنے کا ذکر کرتے ہیں۔ اس سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ طیبہ گل اور چیئرمین نیب کے درمیان بے تکلفی کافی پرانی ہے۔ اس لئے تصویر کے اس رخ پر بھی غور ضرور کرنا چاہیے۔اسی طرح طیبہ گل کو اگر کسی نے برہنہ کیا اور یہ بات سچ ہے تو پھر ان لوگوں کو نشان عبرت بنانا چاہیے۔ لیکن یہ کھوج بھی لگانا ضروری ہے کہ کیا طیبہ گل کل کی میڈم طاہرہ تو نہیں جو آج اپنی گلفشانی سے جو نئے گل کھلا رہی ہے اس سے پھول نہیں بلکہ کانٹے ہی پیدا ہوں گے کیونکہ ہر کوئی مولانا سمیع الحق مرحوم کی طرح میڈم طاہرہ جیسے کردار کے مقابلے میں خاموشی نہیں اپناتا۔