چند سال پہلے کی بات ہے۔ تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبد الوھاب صاحب کی علالت کے دنوں میں ان کے فوت ہونے کی خبر کئی مرتبہ سوشل میڈیا پر چلی۔ایک دن ایک صحافی جو خود کٹر دیندار ہے کی وال پر خبر دیکھ کر یقین ہوگیا کہ حاجی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ جماعت کی بالائی قیادت کو اطلاع دی۔ وفد تشکیل دیا گیا جو رائے ونڈ جنازے میں شرکت کرے گا۔ جنازے کا وقت معلوم کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا۔ حاجی صاحب زندہ ہیں۔صحافی کی وال کو دوبارہ دیکھا خبر غائب تھی۔ انہیں کال کی تو بتانے لگے کہ میں نے فلاں کی وال دیکھ کر خبر شیئر کی تھی جو انہی کی جماعت سے ہیں۔ جب معلوم ہوا کہ یہ افواہ ہے تو پوسٹ ڈیلیٹ کردی۔سوشل میڈیا پر خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ جب خبر سے آپ کی دلچسپی ہو یا وہ عوامی ایشو ہو۔کچھ ایسا ہی پنجاب گروپ آف کالجز کے گلبرگ کیمپس کے حوالے سے خبریں گردش میں ہیں۔ طلباء و طالبات شدید اشتعال میں پیں۔ احتجاج اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ سوشل میڈیا ان ویڈیوز اور ان کی حمایت میں بھرا ہوا ہے۔ ہر شخص اس ایشو میں اپنا حصہ ملانا فرض سمجھ رہا ہے۔ دینی و سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنا ردعمل سوشل میڈیا پر شیئر کررہی ہیں۔ پولیس انتظامیہ بھی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔پہلی بات اگر یہ واقعہ سرے سے نہیں ہوا تو بھی کالج انتظامیہ کے ابتدائی رویے اور مس ہینڈلنگ نے طلباء کو اشتعال دلوایا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔دوسرا اگر واقعہ ہوا ہے تو احتجاج کے ساتھ اس کی ایف آئی آر کٹوائی جائے۔ اگر پولیس تعاون نہیں کرتی تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔اس حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق کسی متاثرہ فیملی نے پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔ ہسپتال سے ایم ایل او رپورٹ نہیں بنی۔ متاثرہ بچی منظر عام پر نہیں ائی۔ اگر فوت ہوگئی ہے تو اس کا جنازہ قبر کچھ بھی سامنے نہیں ایا۔صرف احتجاج احتجاج احتجاج ہورہا ہے۔ اس حوالے سے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ سوشل میڈیا پر پھیلی ہر خبر پر اعتبار کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرلیں۔اور قرآن میں موجود سورہ الحجرات کی درج ذیل آیت کو لازمی مد نظر رکھیں۔اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔