اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی):اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس نے رکن ممالک کو ایک منفرد موقع فراہم کیا ہے کہ وہ باہمی مفاد کے لئے علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے یوریشین رابطوں میں پاکستان کے اہم جغرافیائی لنک سے فائدہ اٹھائیں۔شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کی اعلی قیادت کے اجتماع نے نہ صرف پاکستان کو علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے دوطرفہ اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کا موقع فراہم کیا ہے بلکہ اسے وسیع تر یوریشین رابطے کے اقدام میں ایک اہم محرک کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔ ملک کی کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور موٹر ویز شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک بالخصوص وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے زبردست مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں ہونے والے اس سربراہ اجلاس میں بنیادی طور پر سفارتی اور اقتصادی تعاون کے ذریعے علاقائی امن، سلامتی اور خوشحالی کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کے دروازے کھولے گا اور علاقائی مسائل پر اپنے اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر اپنی معاشی اور جغرافیائی سیاسی امنگوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک اہم لمحہ فراہم کرے گا۔شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے اس وقت نو ممالک رکن ہیں جن میں چین اور روس جیسے بانی رکن ممالک کے علاوہ پاکستان، بھارت اور ایران بھی شامل ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عدنان سرور خان نے کانفرنس کی سفارتی اہمیت کے علاوہ اقتصادی خوشحالی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک منفرد تزویراتی جغرافیائی محل وقوع رکھتا ہے جو تجارت، کاروبار اور سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے اہم ہے، یہ سربراہی اجلاس ملک کو علاقائی رابطوں کے مرکز میں خود کو قائم کرنے کا بے مثال موقع فراہم کرتا ہے۔پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر اے ایچ ہلالی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے کردار کو اہم سفارتی پلیٹ فارم کے طور پر اجاگر کیا جو مختلف ممالک اور عالمی تعلقات کی حمایت کرکے نہ صرف علاقائی حرکیات بلکہ اقتصادی تعاون کو بھی نئی شکل دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں تجارت، علاقائی رابطوں، ماحولیاتی خدشات اور سیکیورٹی چیلنجز پر بات چیت خطے کے استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خٹک نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کے معاشی پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے وسطی ایشیا کے ساتھ رابطوں کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ تقریب بظاہر پاکستان کے نقطہ نظر میں جیو اسٹریٹجک فوکس سے جغرافیائی اقتصادی نقطہ نظر میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت20 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے، بہتر رابطوں کے ذریعے وسط ایشیائی وسائل کے انضمام سے تمام فریقین کو خاطر خواہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔پشاور کو افغانستان سے ملانے والے خیبر پاس اکنامک کوریڈور(کے پی ای سی) منصوبے کی منظوری دی گئی ہے جس کی تکمیل کے بعد معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں مدد ملے گی اور صنعت کاری کو فروغ ملے گا جس سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کے پی ای سی کا 47.5 کلومیٹر فور لین ایکسپریس وے پاکستان کو افغانستان اور اس کے بعد وسطی ایشیائی جمہوریہ (سی اے آر)سے منسلک کرے گا، انہوں نے مزید کہا کہ تقریبا 385.6 ملین ڈالر وفاقی حکومت فراہم کرے گی جبکہ کے پی حکومت کا حصہ تقریبا75 ملین ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی اعلی قیادت کے لیے اہم علاقائی مسائل کے حل کے لیے تعمیری مذاکرات کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔