عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کی معیشت پر جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں سال غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ بجلی کی قیمت اس کی لاگت سے زیادہ ہے جبکہ بجلی کی بیس فیصد سبسٹڈی عوام سے وصول کی جاتی ہے اور پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح معاشی ترقی کی شرح سے زیادہ ہے اور یہ شرح غربت میں کمی کی صلاحیت نہیں رکھتی بلکہ رواں سال یہ شرح بڑھ کر 40.5 فیصد تک جائے گی اگر معاشی استحکام کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور آئی ایم ایف پروگرام پر عمل نہ کیا گی۔۔رپورٹ کے مطابق 2023 میں غربت کی شرح 40اعشاریہ 2فیصد تھی، بڑھتی غربت کی وجہ سست معاشی ترقی، بلند مہنگائی اور اجرت میں کمی ہے اور سالانہ 16 لاکھ نئے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع ناکافی ہیںاور اگلے دو سال میں روزگار کے حصول کے لیے مارکیٹ میں 35 لاکھ نئے لوگ آئینگے پاکستان میں قرضوں کی شرح اس سال 72. 4 فیصد سے 73. 8 فیصد تک جانے کا تخمینہ ہے جبکہ اگلے مالی سال پاکستان کے ذمہ قرض کی شرح مزید بڑھ کر 74. 7 فیصد تک جانے کا خدشہ ہے۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ مالی طور پر غیر مستحکم توانائی کا شعبہ معیشت کے لیے خطرہ ہے۔پاکستان کو اگلے 2 سال تک سالانہ 22 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ درکار ہے جبکہ اس سال معاشی شرح نمو دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے سب سے کم رہے۔اگلے مالی سال معاشی ترقی کی رفتار بڑھ کر 3. 2 فیصد ہو جائے گی جبکہ پاکستانی معیشت کو بھاری بیرونی فنانسنگ سمیت بلند خطرات کا سامنا ہے۔ رواں سال مہنگائی کی اوسط شرح 11. 1 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، ڈبل ڈیجٹ مہنگائی کی بڑی وجہ مقامی سطح پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ قرار دیا گیا۔رپورٹ کیمطابق پاکستان میں اگلے مالی سال مہنگائی کم ہوکر 9 فیصد کے سنگل ڈیجٹ پر آجائیگی، رواں سال کرنٹ اکاونٹ خسارہ 0. 6 فیصد اور اگلے سال 0.7 فیصد ہونے کا تخمینہ ہے جبکہ اس سال مالی خسارہ 6. 8 فیصد سے بڑھ کر 7. 6 فیصد تک جانے کا امکان ہے۔
ویسے اس رپورٹ سے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی ہے کہ معیشت بہتری کی طرف جارہی ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس وقت کوئی ایسا تجربہ کار نہیں ہے جو پاکستان کو معاشی بحران سے باہر نکالے بلکہ سبھی شعبدہ باز ٹھہرے ، لفاظی ہی لفاظی ہے جبکہ حقائق تلخ ہیں اور ان کی نشاندہی عالمی بینک اور دیگر ادارے گذشتہ کئی برسوں سے کر رہے ہیں لیکن ان رپورٹس پر ہنوذ ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور ادھر ادھر کی کر کے دیمک زدہ الماریوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔دور مت جائیں عالمی بینک نے گذشتہ برس ہی بتا دیا تھا کہ پاکستان آئندہ سال معاشی لحاظ بہت کمزور ہوجائے گا اگر دور رس حکمت عملیاں نہ اپنائی گئیں کیونکہ پاکستان کا 10فیصد غریب ترین طبقہ 10 فیصد امیر ترین طبقے سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے،تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے حوالے سے پاکستان کے غریب عوام ’’صحارا‘‘ کے افریقی ممالک کے ہم پلہ ہیں،وہ ملک جو کبھی فی کس آمدن کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہوا کرتا تھا اب وہ آخری نمبروں میں ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں ہر سال یہ واضح کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہیومن کیپٹل کا بحران اوردستیاب انسانی وسائل کا کم استعمال پیداوار اور ترقی کو متاثر کر رہا ہے، دو کروڑ سے زائد بچے سکول ہی نہیں جا سکتے جبکہ10سال سے کم عمر 79فیصد بچے لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ پاکستان کو بلند مالی خسارے کا سامنا ہے، 2022ء مالی سال کے اختتام تک مالی خسارہ22سال کی بلند ترین سطح یعنی 79فیصد تک پہنچ چکا تھا جبکہ پاکستان کے ذمے قرض مقررہ قانونی حد سے زیادہ یعنی 78فیصد تک پہنچ چکے تھے، پالیسیوں میں عدم تسلسل کے سبب برآمدات اور سرمایہ کاری میں کمی آ گئی تھی۔عالمی بینک کے مطابق توانائی کا شعبہ ناقابل ِ انحصار اور معیشت پر بوجھ بن چکا ہے اور اِس شعبے پر تیزی سے بڑھتے گردشی قرضے شدید مالی مشکلات پیدا کر رہے ہیں، سرمایہ کاری کا شعبہ غیر موثر ہے اور پالیسی فیصلوں کا محور ذاتی مفاد ہونے کیوجہ سے اس میں بھی مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔ورلڈ بینک نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت کی اور اس انکشاف پر قیصر بنگالی مہر ثبت کر چکے ہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کیوجہ سے مستعفی ہوچکے ہیں ۔جن کی ذہنی حالت کو ہی مشکوک کر دیا گیا تھا کیونکہ ’’اندھوں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ فساد کی جڑ بینائی ہے ‘‘۔
قارئین کرام !پاکستان کے ابتر معاشی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن عالمی بینک کی اِس رپورٹ نے تشہیری ترقی کا پردہ چاک کر دیا ہے جس کے مطابق ہمارے ملک میں دودھ کی نہریں بہنے لگی ہیں جو کہ مخالفین سے د یکھی نہیں جا رہیں! کسے انکار ہے کہ ریاست کی ترقی و خوشحالی کااندازہ عوام کی معاشی حالت سے لگایا جاتاہے۔جبکہ پاکستان میں ہیومن کیپٹل کی بدترین صورتحال ہے،ایک ایسا ملک جس کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن پھر بھی ہیومن کیپٹل کا بحران ہے، آج کا پڑھا لکھا نوجوان ملک میں رہنا ہی نہیں چاہتا، اُس کی ساری دلچسپی باہر جا کر اپنی دنیا بسانے میں ہے کیونکہ یہاں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کئے جا رہے۔ اِس کے علاوہ اگر دو کروڑ بچے سکول ہی نہیں جا رہے تو بہتر مستقبل کی اُمید لگانا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ جس نسل نے جوان ہو کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے، وہ جدید علوم تو دور کی بات فقط لکھنے پڑھنے سے ہی محروم ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں لٹریسی ریٹ 60 فیصد سے بھی کم ہو چکا ہے جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں لٹریسی ریٹ 80 فیصد سے زائدہوچکا ہے جبکہ اِس کے نوجوانوں کی اکثریت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر پوری دنیا میں اپنی دھاک جما رہی ہے اور ہماراانٹرنیٹ ہی بیٹھ چکا ہے مزید سوشل میڈیا ایپس تقریباً بند ہیں۔یہ بات تو ہمارے معاشی ماہرین بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا طاقتور طبقہ ملکی پالیسیاں قومی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات سامنے رکھ کر بناتا ہے، لیڈر شپ ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے قوم کے بجائے صرف اُسی طبقے کو فائدہ مل سکے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوگا بلکہ ملنے والا قرضہ یہ بھی بھلا دیگا کہ مالی خسارہ بلند ترین سطح پر ہے۔
بہرحال بدترین معاشی حالات کے باوجود، سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہو چکے ہیں،دیگر ممالک سے بھی ایسی سرمایہ کاری کی اْمید ہے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ آنے والے سالوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آئے گی،اِس کا پاکستانی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔سرمایہ کاری آئے گی تو روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ملک میں معاشی استحکام آئے گا۔ ،اگر اِن تمام منصوبوں کو نیک نیتی سے مکمل کیا جائے ،سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کو چھوڑ کر بجلی کی ناجائز قیمتوں اور مہنگائی کو ختم کیا جائے تو بگڑے حالات سنبھل سکتے ہیں۔