لاہور ( نمائندہ خصوصی/نواز طاہر)پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں تعلیمی ادارے طالبات کیلئے زندگی اور عزت و تکریم کیلئے شدید خطرہ بن گئے ہیں اور والدین نے اپنی عزت و وقار اور سماجی نظروں سے محفوظ رہتے کیلئے چُپ سادھ لی ہے ، چند روز کے اندر ہی ایک طالبہ پر اسرار طور پر ہلاک ہوگئی ، ایک یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کا معاملہ پیش آیا تو ایک نجی کالج میں طالبہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے پر احتجاج کرنے والے ساتھی طلبہ پر کالج انتظامیہ اور پولیس ٹوٹ پڑی جس کے نتیجے میں ستائیس طلبہ زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔ گورنر پنجاب نے چانسلر کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی اومیں طالبہ کی پراسرار ہلاکت پر اور لاہور کالج ویمن یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی پر انتظامیہ سے رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ نجی تعلمی ادارے ’پنجاب کالج ‘ گلبرگ برانچ میں طالبہ سے مبینہ جنسی تشدد کا معاملہ پراسرار ہوگیا ہے ، ایک جانب متاثرہ ہ طالبہ کی شناخت ظاہر نہیں ہورہی تو دوسری جانب کالج کے سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لئے جانے کی تسدہیق بھی کی گئی ہے مبینہ طور پر کالج انتظامیہ نے سی سی ٹی وی کے کیک کیمروںں سمیت اہم ثبوت مٹادیے ہیں، یہ کیمرے طلبہ کے احتجاج کے دوران بھی ٹوٹ گئے ہیں، اس حتجاج پر کالج انتظامیہ اور پولیس کی تشدد سے ستائیس طلبہ شدید زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ، حکومتی حلقوں کے مطابق عدم ثبوت اور متاثرہ فریق کی طرف سے شکایت نہ کیے جانے پر یہ واقعہ ثابت نہیں ہو رہا لیکن ساتھ ہی محکمہ تعلیم کی جانب سے کالج کی اس برانچ کی رجسٹریشن منسوخ ہونے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا ہے ، یاد رہے کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالتے ہی خواتین اور بچوں کیخلاف جرائم کو اپنی ریڈ لائن قراردے رکھا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال کی رپورٹ لے رہی ہیں دریں اثناءپنجاب کالج لاہور میں بچی سے ریپ کے واقعے کی بچی کے چچا اور والد نے تردید کردی ۔تاریخی پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے دو روز قبل ایک زیر تعلیم طالبہ کی چھت والے پنکھے سے لتکتی لاش ساتھی طالبہ ک کمرے سے برآمد ہوئی جبکہ اس کی دوسری بہن بھی یہیں زیر تعلیم ہے اور ہاستل میں ہی مقیم ہے، اس کی ہلاکت کے اسبات تاحال سامنے نہیں آسکے تاہم پولیس نے مقدمہ درج کررکھا ہے اور فرانزک رپورٹ کی منتظر ہے ، یونیورسٹی انتظامیہ نے ابتدائی طور پر اسے خود کشی خیال ظاہر کیا ہے تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی تفتیش کے بعد ہی صورتحال واضح ہوسکی گی ۔ دوسری جانب لاہور کالج یونیورسٹی فار ویمن میں بھی جنسی ہراسگی کا واعہ پیش آیا ہے اور گورنر پنجاب نے انتظامیہ سے رپورٹ طلب کرلی ہے ذرائع کے مطابق یونورسٹی میں ٹیلی فون پر ہراسگی پھیلانے کا واقعہ پیش آیا ہے اور اس ضمن میں انتظامیہ کی طرف سے ایکشن بھی لیا گیا اور سیکیورٹی افسر سمیت کچھ اہلکاروں کو معطل بھی کیا گیا ہے ، تیسرا سب سے سنگین واقعہ نجی ٹی وی چینل کے مالک اور لاہور کے سابق ناظم میاں عامر محمود کے نجی تعلیمی ادارے ’ پنجاب کالج کی گلبرگ برانچ میں سامنے آیا ہے جہاں مبینہ طور پر ایک طالبہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس میں مزید شدت اس وقت آئی جب انتظامیہ کی طرف سے اس واقعے پر ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے ثبوت مٹادیے گئے تو ساتھی طلبہ نے احتجاج کیا جس پو کالج کی انتظامیہ کی طرف سے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا گیا طالبات کو کمروں میں بند کردیا گیا، کالج کے سیکیورٹی گارڈ اور پولیس ان مظاہرین پر ٹوٹ پڑی ۔ یہ معاملہ اس وقت پنجاب اسمبلی کے
جاری اجلاس میں اٹھایا گیا تو پارلیمانی امور کے وزیر نے بتایا ک پولیس کے دستے حالا پر قابو پانے کیلئے پہنچ گئے ہیں ، اینٹی رائٹ فورس کے دستوں نے مظاہرین پر شفیف تشدد کیا جس کے نتیجے میں ستائیس طلبہ زخمی ہوگیئے ، یہ وہ تعداد ہے جو ریسکیو کے عملے نے ان سے مرہم پٹی کروانے والوں کے بارے میں بتائی جبکہ کچھ طالب علم زخمی ہونے کے بعد خود ہی وہاں سے اسپتال چلے گئے تھے ، جبکہ اسوقت پولیس مظاہرین کی پکڑ دھکڑ بھی کررہی تھی اس ہنگامے کے دوران صوبائی تعلیم رانا اسکندر حیات و وہاں پہنچے جنہوں نے پولیس کا تشدد رکوایا اور اور طلبہ کو یقین دہانی کروائی کہ جنہوں نے ثبوت ڈیلیٹ کیے ان اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی، طلبہ پرامن احتجاج کریں، میں بھی ساتھ دوں گا۔ اس کے کچھ ہی دیر کے بعد حکومتی اداروں کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ کالج کی اس برانچ کی رجسدٹریشن منسوخ کردی گئی ہے اور کالج بند کیا گیاہےیہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب کالج میں طلبہ و طالبات کے ساتھ بدسلوکی کا یہ وقعہ پہلے نہیں ، ماضی میں ہلاکتیں بھی ہوچکی ہیں جنہیں دبا دیا گیا تھا اور اب کالج کی انتظامیہ پر اس واقعے کے دبانے کا بھی الزام لگایا جارہا ہے اور کہا جارہا کہ
حکومت اور حکومتی ادارے اس کالج کی انتظامیہ کی مدد کررہے ہیں ، مظاہرین کا کہنا ہے کہ کالج کی یہ برانچ انتظامیہ کو تحفظ دینے اور اسٹوڈنص و والدین پر دباﺅ ڈالنے اور مزید احتجاج کے پیشِ نظر عارضی طور پر انتظامیہ ہی کی مدد کیلئے بند کی گئی ہے کیونکہ کالج کی بندش سے انتظامیہ کا کوئی نقصان نہیں ہورہپا ، وہ فیسین لے چکی ہے ، صرف اسٹوڈنٹس کا نقصان ہورہا ہے ان کا بھی جو انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں اور ان کا بھہی جو کسی وجہ سے احتجاج میں شریک نہیں خواہ وہ کسی وجہ سےکالج نہیں آئے تھے ۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ طالبہ کے ساتھ جنسی تشدد کی کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی اور نہ ہی کوئی شکایت کنندہ موجود ہے تاہم کالج کا اہیک سیکیورٹی گارڈ حراست میں لیا گیا ہے ، اسی موقف کو پنجاب حکومت کی ترجمان صوبائی وزیراطلاعات اعظمیٰ بخاری نے دہرایا ہے اور کہا ہے کالج کے تمام کیمروں کا ریکارڈ چیک کیے جانے سے تاحال واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی تاہم پولیس نے اس سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے رکھا ہے جس پر جنسی تشدد کا الزام لگایا گیا ہے لیکن اس واقعے کا کوئی شکایت کنندہ نہیں ، یہ واقعہ ابھی ثابت نہیں ہورہا ، وزیراطلاعات کے مطابق ابھی تک کسی بچی کی طرف سے یا کوئی واقعہ پولیس میں رپورٹ نہیں ہوا، ایک بچی کا نام لیا گیا، اس نام کی
تمام بچیوں کے گھروں پہ پتا کیا گیا لیکن کس نے تصدیق نہیں کی تاہم ،وزیراعلی پنجاب ایک ایک لمحے کی رپورٹ لے رہی ہیں اگر ثبوت ملے تو فوری کارروائی کی جائے گی اور اس سے میڈیا کو بھی فوری طور پر مطلع کریں گے ۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس واقعے کے بعد خواتین کی ہراسگی اور تحفظ کے لئے قایم کیے جانے والے سرکاری یا غیر سرکارے ادارے اور تنظیمیں مکمل خاموش ہیں۔قبل ازیں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے 7 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔چیف سیکرٹری پنجاب تحقیقاتی کمیٹی کے کنوینئر مقرر کئے گئے ہیں تحقیقاتی کمیٹی واقعہ کی مکمل جانچ پڑتال کرے گیتحقیقاتی کمیٹی 48 گھنٹوں میں اپنی رپورٹ وزیر اعلی پنجاب کو پیش کرے گی دریں اثناءپنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں طالبہ کی مبینہ خود کشی کی تحقیقات جاری ہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کےمطابق طالبہ کی موت گردن کی ہڈی ٹوٹنے سے ہوئی، طالبہ کی گردن پر رسی کا نشان واضح ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طالبہ کی مبینہ خودکشی کی وجوہات سامنے نہیں آسکیں، لڑکی پانچویں سمسٹر کی طالبہ تھی، تعلق سیالکوٹ سے ہے۔خیال رہے کہ پنجاب یونیورسٹی آئی ای آر ڈپارٹمنٹ کی 23 سالہ طالبہ نے گزشتہ روز گرلز ہاسٹل نمبر 8 کے کمرہ نمبر 91 میں مبینہ طور پر پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی۔ ہوسٹل وارڈن نے کمرےکا دروازہ توڑ کر دیکھا تو لڑکی کی لاش پنکھے سے لٹک رہی تھی۔