اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے بغیر دنیا میں امن ممکن نہیں، دنیا میں قیام امن مہذب ممالک کی ذمہ داری ہے، علاقائی تعاون اور ڈیجیٹل اکانومی وقت کی اہم ضرورت ہیں، جب تک اکانومی کی ڈیجیٹلائزیشن کی طرف نہیں بڑھیں گے ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں چائنہ میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ایس سی او کے حوالے سے میڈیا ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے ایس سی او کانفرنس کے انعقاد سے قبل چائنہ میڈیا گروپ کی جانب سے میڈیا ورکشاپ کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ شنگھائی فائیو سے شروع ہونے والی ایس سی او میں گزشتہ برس بیلاروس کی شمولیت سے اس کے مستقل ارکان کی تعداد 10 ہو گئی ہے جس طریقے سے اس فورم میں علاقائی مسائل پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے، قابل ستائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہماری معیشت ترقی کر رہی ہے، معیشت کے حوالے سے ہر روز اچھی خبریں آ رہی ہیں اور معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیںانہوں نے کہا کہ ایس سی او کے پاکستان میں انعقاد سے پاکستان کے تشخص اور روشن مستقبل کو تقویت ملے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آستانہ میں گزشتہ ایس سی او کے موقع پر کچھ معاہدوں پر ہم نے دستخط کئے، اس حوالے سے علاقائی تعاون میں انسداد دہشت گردی اور تشدد کے خاتمہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ہمارے 80 ہزار لوگ شہید ہوئے۔ یہ قربانی صرف پاکستان کے لئے نہیں بلکہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے دی گئی، دنیا میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے، انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کوششوں سے خطے میں امن کو فروغ ملے گا۔ موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مالیاتی انضمام اور معاشی استحکام میں بہت سے معاملات موسمیاتی تبدیلی سے جڑے ہیں، ہمیں پائیدار ترقی کی راہ میں موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے،ہم نے اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا سب سے زیادہ خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے علاقائی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں تو ہم موسمیاتی تبدیلی کے ایجنڈے پر بہتر طریقے سے کام کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جتنی آگاہی پیدا کی جائے اتنی کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ایس سی او سربراہ کانفرنس کے ایجنڈے پر جہاں انسداد دہشت گردی اور علاقائی سلامتی کے ایشوز پر بات ہوگی، وہاں موسمیاتی تبدیلی کا ایجنڈا بھی زیر غور آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری پائیدار ترقی کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا مسئلہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ حکومت کا موسمیاتی تبدیلی پر بڑا فوکس ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے تعاون میں اضافہ ہونا چاہئے۔موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہم اپنی کوششوں کو تیز کریں تو اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ ایس سی او کے دیگر رکن ممالک بھی مستفید ہو سکیں گے۔ عالمی امن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ایس سی او کے پلیٹ فارم پر عالمی امن کی بات کی ہے، آستانہ میں ایس سی او کے گزشتہ اجلاس میں ہم نے فلسطین کے مسئلے پر زور دیا تھا اور اپنا موقف پیش کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے بغیر دنیا میں امن ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں قیام امن مہذب ممالک کی ذمہ داری ہے۔مشرق وسطیٰ میں اگر صورتحال یہی رہی تو دنیا کو اس کا نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو یہ ماننا ہوگا کہ فلسطین میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، جنگ کی آڑ میں شہری آبادیوں، ہسپتالوں، بچوں اور خواتین کو وائٹ فاسفورس، بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون سے جنگی اصول ہیں جس کے تحت اسرائیل وائٹ فاسفورس اور ممنوعہ اسلحہ استعمال کر کے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے؟انہوں نے کہا کہ فلسطین میں ایک آٹسٹک بچے کو بھی نشانہ بنایا گیا، اس بچے کا کیا قصور تھا؟ اس نے کس طرح اسرائیل کی سیکورٹی کو متاثر کیا تھا؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہے اور یہ تک نہیں دیکھ رہا کہ وہ کسی ہسپتال پر بمباری کر رہا ہے اور بچوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان نے ایس سی او کا رکن ملک ہونے کے طور پر اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ نکات اجاگر کئے کہ فلسطین میں نسل کشی کی جا رہی ہے اور اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے،اسرائیل کا احتساب ہونا چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب ہم امن اور سلامتی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہم سے کچھ دور نسل کشی کی مہم چل رہی ہو، جنگی جرائم ہو رہے ہیں اور ان جنگی جرائم میں ملوث ملک کا احتساب بھی نہ ہو اور امن قائم ہو جائے؟ انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑا ایشو ہے جسے حل ہونا چاہئے۔ ہم نے ایس سی او اور اقوام متحدہ کے فورمز پر فلسطین کے معاملہ پر موثر اور زوردار آواز اٹھائی ہے۔فلسطین کے معاملہ پر ہمارا واضح موقف ہے، ہم 1967ءسے پہلے کی فلسطینی سرحدوں کو تسلیم کرتے ہیں جس کا دارالخلافہ القدس الشریف ہو۔ انہوں نے سوال کیا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے بغیر جب دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا تو پھر علاقائی سلامتی اور تعاون کیسے آگے بڑھے گا؟ مالیاتی انضمام اور معاشی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کے معاشی اشاریئے بہتر ہوئے ہیں، پاکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کا ایک سٹریٹجک محل وقوع ہے جو ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک، علاقائی پارٹنرز اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ تجارت کا موقع فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں موجود ہیں، زمینی راستے ہیں، جہاں ہم دیگر ایشوز کی بات کرتے ہیں وہاں بہت اہم ہے کہ ہم رکن ممالک کے درمیان سرمایہ کاری، تجارت اور علاقائی تعاون کو بڑھانے کے لئے زیادہ مالیاتی انضمام اور معاشی تعاون پر زور دیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 8.8 ارب ڈالر ترسیلات موصول ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ہماری ترسیلات میں اتنا اضافہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئی ایم ایف پروگرام 7 ارب ڈالر کا ہے اور تین ماہ کی ترسیلات 8.8 ارب ڈالر ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے آئی ایم ایف پروگرام میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مالیاتی انضمام، معاشی تعاون اور تجارت و سرمایہ کاری کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی 68 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہمارے پاس دنیا کی دوسرے بڑی تعداد فری لانسرز کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹیکنالوجی کا شعبہ آگے بڑھ رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آگے بڑھنے کے لئے علاقائی تعاون اور ڈیجیٹل اکانومی ضروری ہے، جب تک اکانومی کی ڈیجیٹلائزیشن کی طرف نہیں بڑھیں گے ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر کام شروع کیا، بہت قلیل وقت میں ٹیکس فائلرز کی تعداد دوگنا ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آپس میں تعاون اور روابط کے فروغ کے لئے مالیاتی انضمام اور ڈیجیٹل اکانومی کا بڑا اہم کردار ہے، ایسے ممالک جو ڈیجیٹل ڈومین میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں، ہم ان کے ساتھ زیادہ اشتراک کر سکتے ہیں، سنگل یونیفائیڈ نظام یعنی ڈیجیٹل سپیس تمام ممالک کو میسر ہونی چاہئے اور ڈیجیٹل اکانومی کا ایسا پلیٹ فارم لانے کی ضرورت ہے جس سے تمام ممالک مستفید ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے پناہ مواقع موجود ہیں، ہماری ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے، ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہمارا پالیسی ریٹ نیچے گیا ہے، ہماری آئی ٹی ایکسپورٹس 3.2 بلین ڈالر پر ہیں، مجموعی برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے، معاشی اشاریئے بہتر ہو رہے ہیں، یہ تمام چیزیں علاقائی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔انہوں نے کہا کہ دوست ممالک کے ساتھ تعاون اور معاہدوں کے بغیر تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ بہتر اور روشن مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ ہم ڈیجیٹل اکانومی کی طرف بڑھیں، ایس سی او کے ساتھ ہمارا روشن مستقبل جڑا ہوا ہے، اسے مزید مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے ہم اپنا کردار جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ثقافتی اور عوامی سطح پر تبادلے ضروری ہیں، ہمیں اپنے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ان شاءاللہ خطے کے عوام کے لئے خوشحالی لائیں گے۔