برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے پارٹی عہدے سے مستعفیٰ ہونے کے بعد نئے وزیر اعظم کے انتخاب میں پاکستان کے پنجابی نژاد ساجد جاوید بھی نئے وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد نئے وزیر اعظم کے لیے کنزیٹو پارٹی کے نئے قائد کا انتخاب آنے والے دنوں میں ہو گا۔
برطانیہ کی وزارت عظمیٰ سنبھالنے کی دوڑ میں کئی وزرا کے نام سامنے آرہے ہیں۔ جن میں ایک نام پاکستان کے پنجابی نژاد ساجد جاوید کا بھی ہے۔ 52 سالہ ساجد جاوید وزیر خزانہ رہنے کے بعد جون 2021 سے وزیر صحت کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے دو روز قبل ہی وزیر صحت کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے بوروس جانسن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
وزیرخزانہ ہوتے ہوئے 2020 کے شروع میں ساجد جاوید نے بورس جانسن کے ساتھ اپنے مشیروں کو برطرف کرنے کے حکم پر اختلافات کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ بورس جانسن ساجد جاوید کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے واپس لائے۔ ساجد جاوید وزارت داخلہ سمیت بزنس ‘ کلچر اور ہاوسنگ کے محکموں کے سربراہ رہے ہیں۔ ساجد جاوید نے 2019 میں کنزرویٹو کی سربراہی کا الیکشن لڑا تھا لیکن وہ چوتھے راؤنڈ میں بورس جانسن سے ہار گئے تھے۔
نام: ساجد جاوید
ولدیت: عبدالغنی جاوید
والد کا پیشہ: بس ڈرائیور
ذات: آرائیں
خاندان کی مقامی پہچان: بہلوکے
آبائی گاؤں: چک نمبر 252 گ ب لسوڑی، ٹوبہ ٹیک سنگھ
ساجد جاوید نے برطانوی شہر برسٹل کے جس علاقے میں آنکھ کھولی اسے بعض اخبارات برطانیہ کا سب سے خطرناک علاقہ قرار دیتے ہیں۔ جب وہ سکول میں زیر تعلیم تھے تو انھیں مسلسل یہی مشورہ دیا جاتا رہا کہ ’تم نے یونیورسٹی جا کر کیا کرنا ہے؟ بہتر ہے ریڈیو مکینک ہی بن جاؤ۔‘ لیکن انھوں نے وہ سب کچھ کر کے دکھایا جس کی ان سے توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
خاندانی پس منظر
ساجد جاوید کے خاندان کا تعلق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں سے ہے جہاں اب بھی ان کا آبائی گھر اور زمین موجود ہے۔ پاکستان کے انگریزی روزنامہ ’دی نیشن‘ سے وابستہ صحافی طاہر نیاز کے مطابق ساجد جاوید کے دادا کا نام نور محمد تھا اور وہ چک 252 گ ب کے مقامی زمیندار تھے۔ ان کے چار بیٹے تھے اور ساجد جاوید کے والد عبدالغنی جاوید کا ان میں دوسرا نمبر تھا۔
ساجد جاوید کے تایا کا نام محمد منیر تھا اور وہ ایک مقامی سکول میں انگلش کے ٹیچر تھے۔ ان کا کئی سال پہلے انتقال ہو گیا تھا اور ان کا بیٹا کچھ سال پہلے ہی گاؤں سے نقل مکانی کر کے لاہور چلا گیا تھا۔ ان کے ایک چچا عبدالمجید کا انتقال بھی اسی گاؤں میں ہوا اور ان کا خاندان بھی چار پانچ سال پہلے ہی لاہور منتقل ہوا ہے۔‘ ساجد جاوید کے سب سے چھوٹے چچا عبدالحمید برطانیہ کے شہر برسٹل میں ہی رہتے ہیں۔ساجد جاوید کے والد عبدالغنی جاوید 1961 میں تلاشِ معاش کے سلسلے میں برطانیہ آئے تھے اور شروع میں انھوں نے راچڈیل میں سکونت اختیار کی تھی جہاں انھیں فوری طور پر ایک روئی کی فیکٹری میں کام مل گیا۔ تاہم کچھ عرصہ کے بعد انھوں نے بس ڈرائیور کی ملازمت اختیار کر لی تھی۔ابتدائی چند سال راچڈیل میں گزارنے کے بعد ان کے والد برسٹل آ گئے جہاں ان کے ہاں ساجد جاوید سمیت پانچ بیٹے پیدا ہوئے۔ ساجد کے بھائیوں میں سے باسط جاوید ان کی اپنی وزارت کے تحت پولیس آفیسر رھے اور بعد میں ان کا ویسٹ مڈلینڈز سے لندن کی میٹ پولیس میں تبادلہ ہوگیا۔ اس سے پہلے وہ برطانیہ کی بحریہ میں بھی رہ چکے تھے۔ساجد جاوید کے سب سے بڑے بھائی طارق جاوید جولائی 2018 میں انتقال کر گئے تھے۔ وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے اور سپر مارکیٹ کی ایک چین کے مالک تھے۔ ان کے دیگر دو بھائیوں میں سے خالد جاوید ایک فائنینشل ایڈوائزر ہیں۔ جبکہ عاطف جاوید ملٹی ملین پاؤنڈز مالیت کی شہری جائیداد کے مالک ہیں۔
ساجد جاوید اپنا زیادہ تر وقت لندن اور ووسٹرشائر میں واقع اپنے انتخابی حلقے برومزگرو میں گزارتے ہیں۔ اتنا بڑا خاندان ہونے کے باوجود ان کے والدین ایک دو کمروں کے فلیٹ میں رہنے پر مجبور تھے جو ان کی کپڑوں کی دکان کی بالائی منزل پر تھا۔ ان کے والد کا انتقال 2012 میں برسٹل میں ہی ہوا۔
ابتدائی مشکلات
اگرچہ ساجد جاوید اپنا زیادہ تر وقت لندن اور ووسٹرشائر میں واقع اپنے انتخابی حلقے برومزگرو میں گزارتے ہیں لیکن وہ برسٹل کو ابھی تک نہیں بھول پائے۔ باوجود اس کے یہیں انھیں اپنی زندگی کی ابتدائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سکول میں ان کے اساتذہ جنھیں ان کی صلاحتیوں کی جلا بخشنی تھی، ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے نظر آئے۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق جب ساجد جاوید نے اپنے اساتذہ کے مشورے کے مطابق ریڈیو یا ٹی وی مکینک بننے سے معذرت کر لی تو ان کے ٹیچرز نے پوری کوشش کی کہ وہ اے لیول میں تین مضامین نہ لیں جو یونیورسٹی جانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ مشکل سے دو مضمون ہی سنبھال پائیں گے۔
کنزرویٹو پارٹی میں دلچسپی
اپنے سکول کے دنوں میں وہ شام کو اپنے والد کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر خبریں سنتے تھے جن میں اس وقت کی برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر اور ان کی سیاست بہت ہی نمایاں موضوعات تھے۔اپنے ٹیچرز کے اندازوں کے بالکل برعکس ساجد جاوید ایکزیٹر یونیورسٹی میں معاشیات اور سیاسیات کے مضامین میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے اور وہیں انھوں نے کنزرویٹو کرسچیئن فیلوشپ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔یہیں ان کی ملاقات تھیچر کے پیروکاروں کے ایک گروپ سے ہوئی جن میں سے کئی ایک بعد میں ٹوری پارٹی میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔
بچپن کی محبت سے شادی
مشکل حالات کے سامنے ہار نہ ماننے کی ایک اور مثال ان کی نجی زندگی میں بھی ملتی ہے جہاں انھوں نے ایک پکی عیسائی سفید فام خاتون لارا کنگ سے نہ صرف شادی کی بلکہ نبھائی بھی۔
جب زمانہِ طالب علمی میں ایک انشورنش کمپنی میں مختصر عارضی ملازمت کے دوران ان کی لارا سے دوستی شروع ہوئی تو انھیں کہا گیا کہ ان کا نباہ ناممکن ہے کیونکہ وہ ناصرف انگریز ہیں بلکہ پکی کرسچن بھی۔ انھیں کہا گیا کہ وہ کسی اپنی رنگت والی اور اسی مذہبی و خاندانی پس منظر والی لڑکی کا انتخاب کریں۔
انویسٹمنٹ بینکنگ
جب ساجد نے بینکنگ کے شعبے میں ملازمت شروع کی تو انھوں نے ریٹیل بینکنگ کے بجائے انویسٹمنٹ بینکنگ میں جانے کی ٹھانی۔شروع میں انہیں دو برطانوی بینکوں کی طرف سے انٹرویو کے لیے بلایا گیا لیکن انٹرویو لینے والے اپر کلاس پرائیویٹ تعلیم سے آراستہ انگریز ان کے والد کے پیشہ ورانہ پس منظر سے متاثر نہ ہوئے۔تاہم بعد میں امریکی بینک چیز مینہیٹن میں ملازمت کے لیے انٹرویو لینے والوں کو ان کی یہی بات اچھی لگی اور انہیں ملازمت دے دی گئی۔ وہ پچیس سال کی عمر میں چیز کے وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچ چکے تھے اور بینک کے نیویارک کے دفتر میں تعینات تھے۔بعد میں انہوں نے ڈوئچے بینک میں ملازمت اختیار کی جو اس وقت اپنے کاروبار کو پھیلا رہا تھا اور دھڑا دھڑ امریکی بینکوں کے ملازمین کو توڑ رہا تھا۔ یہاں انہیں تمام تنخواہ حصص کی صورت میں دی جاتی تھی جس سے انہیں پیسے بنانے کا ایک اچھا موقع ملا۔
سیاست
ساجد جاوید کو سیاست میں لانے اور ان کی کامیابی کا زیادہ تر کریڈٹ سابق چانسلر جارج اوزبورن کو دیا جاتا ہے جنھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ٹوری پارٹی میں کامیابی کی منزلیں تیزی سے طے کریں۔
اسی وجہ سے وہ محکمہ خزانہ کے ایک کم اہم عہدے سے شروع ہونے کے بعد جلد ہی کلچر ڈیپارمنٹ کے وزیر بن گئے۔ساجد جاوید کو سیاست میں لانے اور ان کی کامیابی کا زیادہ تر کریڈٹ سابق چانسلر جارج اوزبورن کو دیا جاتا ہےڈیوڈ کیمرون اور جارج اوزبورن کے جانے کے بعد بھی ساجد جاوید کی قسمت کی ستارے کو کوئی زوال نہیں آیا۔ انھیں ٹریسا مے کی کابینہ میں پہلے بزنس سیکریٹری بنایا گیا اور جب ونڈرش کے تنازع کے بعد امبر رڈ نے ہوم سیکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو یہ عہدہ ان کے حصے میں آیا۔ وہ اس اعلیٰ سرکاری عہدے تک پہنچنے والے پہلے ایشیائی تھے۔