کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اساتذہ کا معاشرےکی تربیت میں اہم کردار ہے۔ استاد کا پیشہ ذریعہ معاش بھی ہے لیکن ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کرنے کا تقاضہ بھی کرتا ہے۔ جن بچوں کو ہم پڑھاتے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے، اگر وہ بچے اچھے انسان بن جاتے ہیں تو اندازہ لگائیں وہ معاشرے کے لئے کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر آل سندھ پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے تحت مقامی ہوٹل میں منعقدہ اکیڈمیہ چوائس ایوارڈ کی تقریب سے بحثیت مہمان خصوصی خطاب اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے وزیر اعلٰی سندھ کے مشیر سید نجمی عالم، رکن سندھ اسمبلی آصف موسی، سید حیدر علی، سید توصیف شاہ، دانش بلوچ، محمد سلیم و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ تقریب میں پیپلز پارٹی کے محمد آصف خان و دیگر بھی شریک ہوئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ اساتذہ کا معاشرے کی تربیت میں اہم کردار ہے اور میں آج جس مقام پر پہنچا ہوں اس میں میرے والدین، میری پارٹی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی محنت بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جن کی تربیت کے اثرات شخصیت پر رہ جاتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ میرے والد ایک روز اپنے دوست کے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ بیچ روڈ پر انہوں نے اپنی گاڑی روک دی اور سڑک پر جاتے شخص کے پیروں میں گر گئے، ان کے دوست پریشان ہوئے پوچھا یہ کون ہیں تو میرے والد نے بتایا کہ یہ میرے استاد ہیں، اس نے مجھے پڑھایا ہے اور میں آج جس مقام پر ہوں اس میں ان کا بھی کردار ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ میرے بابا کے ٹیچر اب بھی زندھ ہیں، میرے پاس آتے ہیں اور ان کا ذکر کرتے ہیں اور روتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ میری اسکول ٹیچرز میں ایک صدیق صاحب تھے بڑے سخت تھے، ان کی بڑی محنت ہے اگر میری لکھائی اچھی ہے تو وہ سر صدیق کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری میتھ اچھی تھی سو میں سے 96 نمبر لیتا تھا، تو صدیق سر کی وجہ سے ہی تھا۔انہوں نے کہا کہ آج میں گھر میں بھی بیوی سے زیادہ سگھڑ ہوں، وہ سب استاد کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ استاد کا اثر میری زندگی پر رہا ہے، پھر کالج، یونیورسٹی سب جگہ اچھے استاد ملے۔ میں وزیر تعلیم بنا میں نے اپنے کالج کادورہ کیا اس کا میں نے اہتمام کیا، ہم کلاس فیلوز گئے، ہم نے اسمبلی اٹینڈ کی کلاسز میں گئے، اس وقت وہ کو ایجوکیشن تھا ہم سب کلاسز میں گئے میرے ساتھ سارے ٹیچرز آبدیدہ تھے۔ اس تقریب کو چار چاند ہمارے اس وقت کے اساتذہ کے آنے سے لگےوہ فخر کررہے تھے کہ ہمارے طالب علم آج کس مقام پر ہیں اور میرا شاگرد آج وزیر تعلیم ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ میرے استاد صدیق آج بھی ملتے ہیں، ان سے ملکر اتنی خوشی ہوتی ہے جتنی والدین سے ملکر ہوتی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ استاد کا پیشہ ذریعہ معاش بھی ہے، لیکن ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کرنے کا تقاضہ بھی کرتا ہے۔ جن بچوں کو ہم پڑھاتے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے، اگر وہ بچے اچھے انسان بن جاتے ہیں تو اندازہ لگائیں وہ معاشرے کے لئے کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اُستادوں نے اب بچوں کو پڑھانا کم کردیا ہے، وہ اور معاملات میں بھی پڑجاتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ ہڑتال کا حق دنیا بھر میں ڈاکٹرز، پیرامیڈکل اسٹاف کونہیں ہوتا، میں سجھتا ہوں کہ یہ ٹیچرز کو بھی نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ اس سے تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سال میں پچیس تیس دن ہڑتال ہوگئی تو سلیبس کیسے پورا ہوگا۔ ٹیچرز کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیئے، جس سے تعلیم متاثر ہو۔ سعید غنی نے کہا کہ آج کا دن ٹیچرز ڈے پر ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ ہم ماضی کی غلطیوں جن کی وجہ سے تعلیم متاثر ہوئی اس کو نہ دہرائیں کا عزم کریں۔ اپنے بچوں کی طرح معاشرے کے بچوں کی اچھی تعلیم کا سوچیں۔ اپنے بچوں کی طرح احساس کریں، دعا ہے اللہ تعالی ہمارے ملک میں تعلیم کے شعبے میں جو غلطیاں کی ہیں وہ ختم کرنے کی توفیق عطا کرے۔ بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت نے میرٹ پرٹیچرز بھرتی کئے،صدر آصف علی زرداری نے جب میں وزیر تعلیم تھا خاص ہدایت کی تھی کہ ٹیچرزکی بھرتی میں میرٹ کو یقینی بنایا جائے۔ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئی بی اے سکھر کے تحت 60 ہزار اساتذہ کو مکمل میرٹ پر بھرتی کیا اور یہ بھرتی یوسی کی سطح پر کروائی کہ جس سے پر یوسی کی اسکول میں وہاں کا ہی ٹیچر بھرتی ہو اور اس کا تبادلہ نہ ہو اور وہاں کے اسکولز میں تعلیمی معیار بہتر ہو۔ انہوں نے کہا کہ ان اساتذہ کی بھرتیوں کے نتائج آنے والے چند سالوں میں شروع ہوجائیں گے اور ہمارا طالب-علم ایک بہتر طالب-علم بن کر سامنے آئے گا۔