پیرس:(مانٹرنگ ڈیسک )فرانس میں قائم حقوق انسانی کی معروف تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضے کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق فیڈریشن نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کی گئی "آپ کی سرزمین ہماری ہے”کے عنون سے56صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں2019کے بعدسے بھارتی حکومت کی طرف سے کی گئی سخت قانونی اور پالیسی ترامیم کی وجہ سے کشمیریوں کے انسانی حقو ق خصوصا اراضی کے مالکانہ حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ ان اقدامات کی وجہ سے کشمیریوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے اراضی کے مالکانہ حقوق میں ترامیم سے بھارتی قابض حکام کو ہزاروں کشمیریوں کو جبری طورپر ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کااختیار مل گیا ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ بھارت کی طرف سے 2019سے متعارف کرائے گئے نئے قوانین کے تحت اب کوئی بھی بھارتی شہری جموں و کشمیر میں مستقل رہائش اختیار کر سکتا ہے ۔ بھارتی شہریوں کو بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں زمین خریدنے، ملازمتوں کے حصول اور انتخابات میں ووٹ دینے کا حق بھی دیاگیا۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوںکا حوالہ دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ مودی حکومت نے اگست 2019 سے پہلے کے کشمیریوں کے مالکانہ حقوق میں تبدیلی کر کے نئے ظالمانہ قوانین اور پالیسیاںنافذ کی ہیں ، جن کی وجہ سے جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب اور کشمیریوں کے سیاسی ،سماجی اور معاشی حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ان قوانین کے ذریعے مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے خدشات بڑھ گئے ہیں اور کشمیری انہیں جموںوکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت پر ایک حملہ قراردے رہے ہیں۔گزشتہ سال جنوری میں قابض انتظامیہ نے تجاوزات ہٹانے کے نام پر ایک نام نہاد مہم کا آغاز کیاتھا جس کا مقصد تقریبا 22لاکھ 40ہزارکنال اراضی پر قبضہ کرنا تھا جس کا رقبہ ہانگ کانگ کے رقبے کے برابر ہے۔قابض انتظامیہ کے اس اقدا م سے مقامی لوگوںمیں اپنی سرزمین اور گھروں سے بے دخلی کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور وہ شدید خوف و دہشت میں مبتلا ہیں۔رپورٹ میں مزیدکہا گیا ہے کہ کشمیریوں کی اراضی اور املاک پرقبضے کو 2019کے بعد مودی حکومت کی طرف سے نافذ کئے گئے نئے قوانین کے تحت تحفظ فراہم کیاگیا ہے ۔ان اقدامات کے تحت قابض انتظامیہ نے ایک ماہ کے عرصے میں کشمیریوں کی دس لاکھ کنال سے زائد راضی پر قبضہ کیا۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کے وسیع تر نسلی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو نشانہ بنانااورانہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو بگاڑناہے۔رپورٹ میں مودی حکومت کی طر ف سے سرینگر میں "خصوصی سرمایہ کاری کوریڈور” کے قیام کی تجویز پر بھی تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ میں شبہ ظاہر کیاگیا ہے کہ کوریڈو ر کے ذریعے پیدا ہونیوالی دس لاکھ نئی ملازمتوں پر غیر کشمیری ہندوئوںکو بھرتی کیاجاسکتا ہے ۔رپورٹ میں مستقل رہائش کے قوانین، اراضی کے مالکانہ قوانین، اور جموںوکشمیرتنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت لیز کے معاہدوں میں ترامیم کے علاوہ نئے ریزرویشن قوانین پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس نے بھارتی حکومت سے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ سمیت دیگر کالے قوناین کی منسوخی اورکشمیریوں کے جمہوری حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔اس رپورٹ کی ریسر چ رواں سال جنوری اور اگست کے درمیان کی گئی ، جس میں کشمیر کے ماہرین تعلیم، وکلا اور صحافیوں کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ میڈیا رپورٹس اور تاریخی دستاویزات کے حوالے بھی شامل کئے گئے ہیں