کنفیوشس سے منسوب یہ مقولہ اپنے اندر صدیوں کی دانش سموئے ہوئے ہے کہ ’اگر آپ کمرے میں موجود ذہین ترین فرد ہیں تو آپ غلط کمرے میں ہیں۔‘ پاکستان کرکٹ کا المیہ بھی یہی ہے کہ یہ پچھلی دو دہائیوں سے غلط کمرے میں ہے۔اس کی دو طرفہ کرکٹ میں مسابقت کے معیار ایسے ہوتے ہیں کہ چنیدہ بلے باز اور جوشیلے پیسرز پرفارمنسز کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ مگر قلعی تب کھلتی ہے جب مسابقت کا معیار عالمی سطح پر پہنچتا ہے اور پہلی بار کوہلی، سمتھ، سٹارک و بمراہ سے پالا پڑتا ہے۔چیمپیئنز کپ تمام ہوا۔ یہ محسن نقوی کا وژن تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران جب پاکستان نو آموز امریکہ کے سامنے زیر ہوا تو چئیرمین پی سی بی کو ’تشویش‘ لاحق ہو گئی کہ پاکستان کرکٹ میں ٹیلنٹ کی گہرائی ختم ہو چکی ہے اور موجودہ سپر سٹارز کے متبادل ڈومیسٹک سرکٹ میں موجود نہیں ہیں۔پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دنوں سے ہی محسن نقوی کی یہ بھلی عادت رہی ہے کہ جو سوچتے ہیں، جھٹ سے کر بھی ڈالتے ہیں۔ کچھ انڈر پاسز اس قدر جلد تعمیر ہوئے کہ ’شہباز سپیڈ‘ کے مقابلے میں ’محسن سپیڈ` قابلِ تشہیر اصطلاح بن کر سامنے آئی۔پی ایس ایل کے دوران بھی محسن نقوی کو ’تشویش‘ لاحق ہوئی تھی کہ پاکستانی بلے بازوں کے چھکے اتنے لمبے نہیں کہ سٹیڈیم سے باہر جا گریں۔ جھٹ پٹ انھوں نے کاکول اکیڈمی میں ٹریننگ کا بندوبست کیا اور دو ہفتے کھلاڑی پتھر اٹھائے بھاگتے بھی رہے مگر ورلڈ کپ کے پہلے ہی میچ میں امریکہ نے سارے خواب کِرچی کر دیے۔اب جبکہ ایونٹ تمام ہو چکا، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس سے جو نئے چہرے میسر ہوئے، کیا وہ آئندہ برسوں میں پاکستان کرکٹ کی باگ تھام سکیں گے؟جو حشر محسن نقوی کے خوابوں کا ورلڈ کپ میں ہوا، اس کے بعد چیمپیئنز کپ کا منعقد ہونا شاید ناگزیر ہو چکا تھا کہ پی سی بی کچھ تگ و دو کرتا تو دکھائی دے۔ اب جبکہ ایونٹ تمام ہو چکا، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس سے جو نئے چہرے میسر ہوئے، کیا وہ آئندہ برسوں میں پاکستان کرکٹ کی باگ تھام سکیں گے؟اگرچہ نو آموز چہروں میں سے کم ہی کوئی ایسا ٹیلنٹ ابھر پایا جو شدید دباؤ کے ہنگام اپنا بہترین سپیل پھینک سکے یا اپنی بہترین اننگز جوڑ سکے، مگر کئی ایسے کھلاڑی ضرور سامنے آئے جنھیں انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔عبدالصمد ہوں، مبسر خان ہوں، طیب طاہر ہوں، محمد عمران ہوں، احمد دانیال ہوں کہ جہانداد خان ہوں، ان سبھی نے پاکستان کے انٹرنیشنل کرکٹرز کے ہمراہ اور مقابل کھیلتے ہوئے اچھی پرفارمنسز دکھائی ہیں اور پی سی بی ہائی پرفارمنس سینٹر کو ان کے ارتقا میں کوئی دریغ نہیں برتنا چاہیے۔لیکن ستم ظریفی یہ بھی رہی کہ جو المیہ پاکستان کو انٹرنیشنل لیول پر درپیش ہے، وہی چیمپیئنز کپ میں بھی نمایاں رہا اور اہداف کا تعاقب کرنے والی ٹیمیں کامیابی سے بہت پیچھے گرتی رہیں جہاں بعض ٹیم اننگز تو گویا پلک جھپکتے میں ہی سمٹتی گئیں۔ یہ اس دیرینہ مسئلے کی غمازی ہے جو پریشر پلئیرز کی کمیابی کے سبب ہر دور میں پاکستان کا مقدر رہا ہے۔سو انٹرنیشنل کرکٹ اور پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنے کی جو خواہش محسن نقوی کے دل میں ہے، وہ شاید اس چیمپیئنز کپ کے توسط سے پوری نہ ہو پائے کیونکہ یہ ایونٹ بھی کوئی اچھا پریشر پلیئر سامنے نہیں لا پایا۔یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کرکٹ باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ چکی ہے۔ مگر اس میں سارا قصور پاکستانی کرکٹرز کا نہیں ہے۔ جہاں دیگر سبھی ممالک کے کھلاڑی آئی پی ایل جیسے پلیٹ فارم پر دنیا بھر کے بہترین کرکٹرز کا سامنا کرتے ہیں، وہیں پاکستان کے بابر اعظم کو مچل سٹارک اور بمراہ کا سامنا کرنے کے لیے ورلڈ کپ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ایسے کھلاڑی ضرور سامنے آئے جنھیں انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے تیار کیا جا سکتا ہےمگر جو قصور پاکستانی کرکٹرز کا ہے، وہ کمزور مسابقت کے مقابلوں میں اتر کر رنز کے انبار لگاتے جانا اور وکٹوں کے کالم بھرنا ہے۔ اگر بابر اعظم کو کوہلی کے برابر کا ٹیلنٹ بن کر ابھرنا ہے تو پھر انھیں زمبابوے کے خلاف غلط کمرے میں گھس کر خود کو ذہین ترین ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟انڈیا کے فیوچر ٹور پروگرام میں بھی پاکستان ہی کی طرح زمبابوے، آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ جیسوں کے خلاف مقابلے طے ہوتے ہیں، مگر نہ تو روہت شرما، نہ وراٹ کوہلی اور نہ ہی بمراہ ان ٹیموں کے خلاف میدان میں اترتے ہیں بلکہ ان سیریز کو انڈیا اپنی سیکنڈ الیون کی تیاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔پاکستان کرکٹ کو اگر انٹرنیشنل مسابقت کے معیار تک پہنچنا ہے تو کم از کم یہ آج ہی طے ہو جانا چاہیے کہ مختصر فارمیٹ میں زمبابوے، آئر لینڈ، سکاٹ لینڈ وغیرہ کے خلاف بابر اعظم، محمد رضوان، نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کو کھلانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ایسے میچز میں نتائج سے قطع نظر، طیب طاہر، احمد دانیال اور عبدالصمد جیسے نئے چہروں کو موقع دیا جائے گا تا کہ انٹرنیشنل کرکٹرز کی نئی کھیپ تیار ہو سکے۔اگلے ہفتے سے پاکستان کے ہوم سیزن کا مصروف ترین مرحلہ شروع ہو رہا ہے اور نومبر کے دورۂ زمبابوے میں پاکستان کے پاس یہ موقع بھی ہو گا کہ وہ چیمپیئنز کپ کے پرفارمرز کو انٹرنیشنل کرکٹ کا ذائقہ چکھا سکے۔مگر یہ جرات آزمانے سے پہلے پی سی بی کو یہ ادراک کرنا ہو گا کہ وہ غلط کمرے میں ہے اور اسے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔