20 ملیئن سے زیادہ آبادی کے شہر کراچی کو زیر زمین پانی اور ندی نالوں کی بدترین آلودگی کا سامنا ہے۔کراچی شہر ملیر اور لیاری ندیوں میں روزانہ 362 ملین گیلن کچا سیوریج خارج کرتا ہے، جو بالآخر ساحلی کھاڑیوں میں بہہ جاتا ہے۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کی 2021 کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کراچی کے دریائی پانی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ انسانی استعمال اور آبی حیات کے لیے غیرمحفوظ حد تک آلودہ ہے۔سٹوڈنٹ سوسائٹی فار کلائمیٹ چینج اویئرنس (SSCCA) نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) سے چار طالب علموں کو شارٹ لسٹ کیا — نازش ابڑو، اریشہ اسلم، آمنہ لکھا، اور علیزہ علی حافظ عظمت جنہیں PK ٹیم 22 کہا جاتا ہے۔موسمیاتی ماہرین سے مشاورت کے بعد، وہ کورنگی اورلیاری کے دریاؤں میں شدید آلودگی کو اجاگر کرنے کے لیے کراچی کے دریاؤں میں تیرتی ہوئی گیلی زمینیں( Floating Wetland) لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس منصوبے میں ری سائیکل شدہ بانس جوٹ فوم سے تیرتی ہوئی گیلی زمینیں بنانا شامل ہے۔تیرتی ہوئی گیلی زمینیں انسانی ساختہ پلیٹ فارم ہیں جو قدرتی آبی زمینوں کی نقل کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں اور انہیں تالابوں، جھیلوں یا دریاؤں جیسے آبی ذخائر میں تیرنے کے لیے لنگر انداز یا چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہ تیرتے پلیٹ فارم پودوں اور ان کے جڑوں کے نظام کو سہارا دیتے ہیں، جو پانی میں لٹک جاتے ہیں۔یہ گیلی زمینیں قدرتی فلٹریشن فراہم کرکے، نائٹروجن اور فاسفورس جیسے اضافی غذائی اجزاء کو جذب کرکے، اور گند کو پھانس کر پانی کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں۔یہ پودوں کی جڑوں پر موجود مائکروبیل کمیونٹیز بھی آلودگیوں کو توڑنے، حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینے اور آبی حیات کے لیے رہائش فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔مزید برآں، تیرتی ہوئی گیلی زمینیں ماحولیاتی نظام کی بحالی اور سیلاب کے تخفیف میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔