کراچی( نمائندہ خصوصی )وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کراچی پریس کلب کے 700 نئے اراکین کے لئے پلاٹس ، کراچی پریس کلب ہاؤسنگ سوسائٹی ہاکس بے کے تمام بلاکس میں باؤنڈری وال اور ترقیاتی اسکیم کے پرپوزل، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی لیز کا اجرا ، ایم ڈی اے میں صحافیوں کے لئے 80/20 کے پیمنٹ فارمولا اور کراچی پریس کلب کی لیز کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے اور ایک ماہ میں اراکین کے بیشتر مسائل حل کرنے یقین دہانی کراتے ہوئے نومبر کے پہلے ہفتے میں دوبارہ کراچی پریس کلب کادورہ کرنے کا اعلان کیاہے۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بدھ کو صوبائی وزراء شرجیل انعام میمن، سید ناصر حسین شاہ، سعید غنی، معاون خصوصی وقار مہدی اور سیکرٹری اطلاعات حکومت سندھ ندیم الرحمن میمن کے ہمراہ کراچی پریس کلب کا دورہ کیا- وزیر اعلی سندھ کی پریس کلب آمد پر کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی، سکریٹری شعیب احمد ،جوائنٹ سیکرٹری محمد منصف،خازن احتشام سعید قریشی ،گورننگ باڈی کے ارکان نواب قریشی ، شمس کیریو ، مونا صدیقی ،شازیہ حسن ،نور محمد کلہوڑو ،رانا جاوید اور شعیب احمد نے کیا۔کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی اور سیکریٹری شعیب احمد نے گورننگ باڈی سے ملاقات میں وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر اطلاعات سندھ کا کراچی پریس کلب کی گرانٹ 7 کروڑ کرنے پر خصوصی شکریہ ادا کیا ، صدر کراچی پریس کلب نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ کی ذاتی کوششوں اور شرجیل انعام میمن کی کراچی پریس کلب اور صحافیوں سے خاص تعلق کی بنیاد کراچی پریس کلب کی گرانٹس سمیت دیگر مسائل حل ہوتے رہے ہیں اور آج وزیر اعلی سندھ کی اہم وزراء کے ساتھ کراچی پریس کلب آمد اور گورننگ باڈی سے ملاقات اس بات کا عندیہ دے رہی کہ ہمارے تمام دیرینہ مسائل جلد حل ہوں گے، انہوں نے بلاول بھٹو زرداری ، وزیر اعلی سندھ ، وزیر اطلاعات سمیت سندھ حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا، سیکریٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد نے وزیر اعلی سندھ کو کراچی پریس کلب کے ممبران کو درپیش مسائل پر تفصیلی بریفنگ دی، 700 نئے ممبران کو لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پلاٹس کی الاٹمنٹ ، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 338 پلاٹس کے پیمنٹ فارمولے پر عمل درآمد، صحافی کالونی ہاکس بے کے پانچوں بلاکس کی باؤنڈری وال اور ترقیاتی منصوبوں کو اے ڈی پی اسکیم میں شامل کرنا، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پلاٹس کی لیز کا اجراء ، کراچی پریس کلب میں دوسرے مرحلے کا سولر سسٹم اور کراچی پریس کلب کی لیز کے معاملات بریفنگ کا اہم جز تھے، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی پریس کلب کے اراکین کو درپیش مسائل سے آگاہ ہیں اور ہمارے متعلقہ وزراء ان معاملات کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، کراچی پریس کلب پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے نئی جگہ نہیں ہے ۔یہاں سے محترمہ بے نظیر بھٹواور قائد عوام ذوالفقار بھٹو نے آمریت کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی ۔ابھی بھی ہماری قیادت میڈیا اور اس پریس کلب کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ ریاست کا چوتھا ستون ہے ۔انہوں نے کہا کہ میڈیا اور پریس کلبز پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں تک اصل حقائق پہنچائیں ۔ پہلے صحافت کا معیار بہت بلند تھا ، اب ہر موبائل رکھنے والا صحافی ہے ۔صحافت کے غلط استعمال سے نقصان بہت ہوتے ہیں اور اس طرح سے سب سے زیادہ نقصان خود صحافت کو ااٹھانا پڑا ہے ۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ میں نے پریس کلب کے ذمہ داران سے وعدہ کیا ہے کہ نومبر کے پہلے ہفتے میں پھر آؤں گا اور ان تمام کاموں پر رپورٹ پیش کروں گا،انہوں نے کہا کہ کراچی پریس کلب کے ممبران کے مسائل کے حل کے لیے جووعدہ کیا ہے وہ جلد پورا کریں گے ۔بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئینی عدالت کا قیام 2024 کے پیپلزپارٹی کے منشور کا حصہ ہے، ماضی میں اس وقت کے چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کو بلیک میل کیا اورچیف جسٹس نے دھمکی دی تھی کہ وہ پوری اٹھارہویں ترمیم کو اٹھا کر پھینک دیں گے، اس وقت بلاول بھٹو زرداری جن عدالتی اصلاحات کا ذکر کر رہے ہیں، وہ شہید بی بی کے نظریات کاحصہ ہیں۔انہوں نے یہ بات بدھ کو کراچی پریس کلب کے دورے کے موقع پر گورننگ باڈی سے ملاقات اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی،سید مراد علی شاہ نے کہا کہ شہید بےنظیر بھٹو نے 2006 میں آئینی اصلاحات کی بات کی تھی،آج جو باتیں کر رہے ہیں وہ بتائیں ایک سال پہلے کسی نے ایسی بات کی تھی؟وزیر اعلی نے کہا کہ ایک سال پہلے بلاول بھٹو کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ایسا کوئی مسئلہ آئے گا، وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کسی اور نے اگر اس معاملے کو اپنایا ہے تو الگ بات لیکن قیادت بلاول نے کی ہے۔ایک سال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھ سکتا ہے، کم نہیں ہو سکتا، انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر ہمارے کچھ تحفظات ہیں جن کو وزیرخزانہ نے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، ہم نے اپنے تحفظات تحریری طور پر دئیے ہیں۔وزیر اعلی نے کہا کہ سندھ اسمبلی نے کے الیکٹرک کے حوالے سے سخت موقف اپنایا تھا، ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ کے الیکٹرک کے بورڈ میں صوبائی نمائندے کو شامل کیا جائے، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں ملک کی معیشت سے کھیل کھیلا اس ملک کو سنبھلنے میں دو سال لگے ہیں ۔ انہوں نے میڈیا سے کہا کہ وہ بھی یہ معاملہ اٹھائے کہ کراچی کے عوام کی نمائندہ سندھ حکومت کو کے الیکٹرک بورڈ میں شامل کیا جائے، وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہمارا نمائندہ نہ ہونے کہ وجہ سے اندر کی باتوں کا پتہ نہیں چلتا۔وزیر اعلی نے کہا کہ گورنر سندھ کا سرگرم ہونا اچھی بات ہے لیکن سب کام وہ نہیں کرتے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کالی بھیڑیں ہر ادارے میں یہاں تک کہ صحافت میں بھی موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز کے معاملے پر حکومت سندھ نے تحقیقات کی اور ورثا سے بات کی، حکومت نے ورثا کو کہا کہ آپ ایف آئی آر داخل کرائیں یا پھرریاست خود کرائے گی، مراد علی شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز والی صورتحال نئی نہیں،یہاں ایک گورنر کو شہید کردیا گیا، وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہم نے آئی جی سندھ سے کہا ہے کہ حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی نفسیاتی جانچ پڑتال بھی کرائی جائے۔انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت اس کیس کی مکمل انکوائری کرے گی ، سزا دینا عدالتوں کا کام ہے، وزیراعلی سندھ کہا کہ بہت واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ صوبہ سندھ مکمل وحدت کے ساتھ قیامت تک قائم رہے گا۔