پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ، پاکستان میں انصاف فراہم کرنے والا اعلیٰ ترین با اعتماد ادارہ ہے۔جس سے ہمیشہ توقع کی جا تی ہے کہ یہ ادارہ انصاف کی بلا تفریق فراہمی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یقینا ایسا ہوتا ہے اور ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ہی انصاف کی فراہمی داؤ پر لگتی ہے ورنہ حلف لینے والے کب چاہتے ہیں کہ کمزوروں کی سنوائی نہ ہو اور طاقتو ر جرم کر کے باوقار زندگی گزاریں بس ایسے فیصلوں کی بنیاد پراشرافیہ کے لئے منصفوں کے دوہرے معیار زیر بحث رہتے تھے لیکن پھر بھی سپریم کورٹ کے بارے بہت احتیاط سے گفتگو کی جاتی تھی اور وقار کا پہلو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔۔ تاہم، حالیہ چند برسوں سے سیاستدانوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو سر عام جلسوں اور میڈیا پر للکارنے اور انکے سیاسی فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہوئے ان کی ساکھ خراب کرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔اور اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ سیاسی فیصلوں کی وجہ سے ججوں کے آپسی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں کیونکہ جج صاحبان اپنے ہی ساتھیوں کے فیصلوں کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں اور با قاعدہ اختلافی بیانات اور خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے کے فیصلوں اور رویوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں عوامی سطح پر یہی تاثر جا رہا ہے کہ ججوں کی رائے ان کی ذاتی سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر تقسیم ہو چکی ہے اور حکمران اتحاد کی آئینی ترمیم اور آئینی اصلاحات کے لئے کی جانے والی بھاگ دوڑ نے اس تاثر کو مزید تقویت دے دی ہے بایں وجہ عوام، عدلیہ کو آزاد و خودمختار ادارہ نہیں بلکہ سیاسی وابستگیوں کے حامل منصفوں کے طور پر دیکھنے لگے ہیں اور ہر کس و ناکس کہنے پر مجبور ہے کہ
صاحب انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
اگر یہ حال ہے تو پھر عدالت کون جائے گا
عوام کا اعتماد تو پہلے سے متزلزل تھا کہ کہنے والے یہ بھی کہہ گئے:”اس کا شہر، وہی مدعی،وہی منصف۔۔ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا“لیکن کرتا دھرتا کو ویسے ہی نظر نہیں آرہا جیسے آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہوئے انھیں مہنگائی اور جائز و ناجائز ٹیکسوں میں دبااورسسکتا ہوا غریب نظر نہیں آتا۔۔ایسے اختلافات اور تنقید ماضی میں بھی ہوتی تھی لیکن شاذ و نادر ہی عوامی دانشوروں کی بیٹھکوں میں زیر بحث آتی تھی لیکن اب تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے سیاسی بازیگروں نے ٹھان لی ہے کہ جیسے ان کے پلے ککھ نہیں رہا ویسے ججوں کا بھی نہیں چھوڑنا۔سب سے زیادہ نقصان جانبدار اینکر و لکھاری پہنچا رہے ہیں جو معزز جج صاحبان بارے غیر شائستہ پوسٹیں کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں بلکہ ججوں کی بیویوں کا کرش تومحترمہ عظمی بخاری بھی کہہ چکی ہیں مگریہ سب کچھ نہ کسی توہین میں آیا اور نہ ہی ایکشن ہوا حالانکہ گوگل سرچ کریں تو ایسے غیر شائستہ الفاظ کی بھرمار ملے گی بائیں وجہ کہنے اور لکھنے والوں کے حوصلے مزید بلند ہوتے چلے جا رہے ہیں اور انھیں یقین ہو گیا ہے کہ دلکش عہدے،سرکاری چینلوں پر نوکریاں اور ہر قسم کی عزت سے نوازا جائے گا۔چلیں۔۔خوشامدی اور قصیدہ کار ہر دور میں ایسا کرتے آئے ہیں لیکن اداروں کو اپنے وقار کے لیے خود بھی سوچنا چاہیے۔محض روبورٹوں کو سزا دینے سے عزت بحال ہو جائے گی جبکہ طاقتور وں نے محاذ کھول رکھے ہیں۔۔!
مجھے کہنے دیجیے کہ قومی وقار و سلامتی کے اعلیٰ ترین ادارے کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے،یہ عدالتی اندرونی تقسیم اور عوامی تشہیر، آئینی ترمیم اور آئینی اصلاحات کے نام پر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے عدلیہ کو سیاسی بنانے کی کوشش تباہی کی دستک دے رہی ہے۔بظاہر معمولی بات لگ رہی ہے لیکن کل اس پر پچھتاوے کے لیے وقت نہیں ملے گا کیونکہ اسلام کی ساری تعلیمات میں سختی سے عدل و انصاف کرنے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ: سورۃ الرحمن کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اپنی لاتعداد نعمتوں میں سے چند کو گنوانے کے بعد جو پہلی بات ذکر فرمائی وہ یہ کہ: ”اسی نے آسمان کو بلند کیا اور میزانِ عدل قائم کر دی۔ کہ اس میزان میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو“ (آیات 7 تا 9)۔ پھر قرآن پاک میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ”اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے“ (المائدہ: 8)اورحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا وہ مشہور واقعہ کسے نہیں معلوم کہ جب انہوں نے ایک معرکہ میں اپنے مقابل کافر کو گرا کر زیر کر لیا اور پھر تلوار کے وار سے اس کا کام تمام کرنا چاہا تو اس نے ان کے منہ پر تھوکنے کی جسارت کر دی۔ حضرت علیؓ اس کے سینے سے یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ اگر اب میں نے تمہیں قتل کیا تو اس میں ذاتی غصہ اور انتقام بھی شامل ہو گا جو کسی طور جہاد نہیں ہے۔ ہمارے دلوں کے اندر کیا ہے‘ یقینا خدا جانتا ہے پھر بھی ڈرتے نہیں اور حالیہ واقعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ حکمران ہی نہیں منصف بھی حد سے تجاوز کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں جبکہ کہتے ہیں کہ ہم ملکی وقار و سلامتی کے ضامن ہیں۔ حکومتیں،عدل و انصاف کے علاوہ کسی بھی چیز سے محکم و مضبوط نہیں ہو سکتیں اور کہیں نہ کہیں عدلیہ اپنا وقار، احترام اور اعتبار کھورہی ہے۔حیرت ہے کہ کرتا دھرتا کیوں نہیں سوچتے کہ جن معزز جج صاحبان کی کریڈیبیلٹی مشکوک ہو چکی ہے ان کے پاس انصاف مانگنے کون اور کیونکر جائے گا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ تمام سیاسی جماعتیں برسر اقتدار اور برسر پیکار سبھی یہ باور کروا رہی ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے سیاسی فیصلے جانبدار ہیں جوکہ طاقتوروں کی ایماء پر کئے جارہے ہیں۔جس عدلیہ کو پلڑے برابر کرنے کی منتیں کی جاتی تھیں اس نے برابر کر دیے اور اب اسی عدلیہ کے ترازو کے کانٹے پلڑ چین کو ہاتھ میں لینے کی کوشش جاری ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ پچیس چھبیس کروڑ کے ملک میں صرف سیاسی بازیگروں کے فیصلے ہی سوالیہ نشان کیوں ٹھہرتے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ سیاستدان معزز ججز کو سر عام للکارتے اور ان کے خلاف اپنے سوشل میڈیا سیلز سے مہم چلاتے ہیں پھر بھی قانون حرکت میں نہیں آتا؟سیاسی بازیگر ہر قسم کے قانون سے آزاد ہیں اور اشرافیہ کے لئے منصفوں کے دوہرے معیار سوالیہ نشان ہیں بایں وجہ ریاست بدحال اور ہر طرف بے سکونی ہے اور جس دھرتی کو ہمارے اسلاف نے لہو کی ندیاں بہا کر حاصل کیا تھا، اس کے بیٹے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملیوں کیوجہ سے بیروزگاری اور بھوک سے تنگ آکر چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں کیونکہ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔
بہرحال پارلیمان کو اپنی سمت درست کرنی چاہیے کیونکہ عوامی نمائندے مفاداتی سیاست کو استحکام بخشنے کے لئے نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے چنے جاتے ہیں۔آئینی ادارے کا وقار آزادی و خود مختاری میں ہے لہذا تمام جج صاحبان کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر ذاتی رنجشوں کو ختم کریں اور کوئی کسی کو رسوا نہ کرے کیونکہ کرسی تو کسی کی کبھی نہیں ہوئی البتہ ذلت جس کا مقدر ہو جائے کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی کہ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجاتی ہے اس لئے ملکی و قومی سلامتی کے اداروں کو اپنی آزادی و خود مختاری کی جنگ اب خود لڑنا ہوگی ورنہ عوام ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہونگے کہ جواب دو! حلف کس چیز کا لیا تھا۔۔
تحریر : رقیہ غزل