اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں سینٹر فار سٹریٹجک پرسپیکٹیو نے ہینس سیڈیل فائونڈیشن کے تعاون سے ” نیویگیٹنگ پاکستان کلائمیٹ ایکشن پاتھ: اڈاپٹیشن، فنانس اینڈ ٹیکنالوجی“ کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس میں ملک کی موسمیاتی حکمت عملی پر غور و خوض کرنے کے لیے پاکستان اور بیرون ملک کے سرکردہ ماہرین نے شرکت کی۔ افتتاحی اجلاس میں سینیٹر شیری رحمان مہمان خصوصی تھیں۔ پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف نے اپنے کلیدی خطاب میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عالمی اتحاد کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کاپ29 میں امن، موسمیاتی مالیات اور موافقت کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے آذربائیجان کے عزم کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی تعاون سب کے لیے ایک پائیدار اور خوشحال مستقبل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔سینیٹر شیری رحمٰن نے اپنے خطاب میں آذربائیجان کے سفیر کی طرف سے قابل تجدید توانائی اور فنانسنگ کے حوالے سے حوصلہ افزاء بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کاپ29 میں جرات مندانہ موسمیاتی کارروائی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک تنہائی میں موسمیاتی چیلنجز کے بحرانوں کا سامنا نہیں کر سکتا، پاکستان تیزی سے شدید موسمی واقعات کا سامنا کر رہا ہے جس میں پچھلے چار سال میں مسلسل ریکارڈ توڑ گرمیاں شامل ہیں۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے موسمیاتی رپورٹنگ کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا اور کہا کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک کے پاس زہریلی گیسوں کے اخراج کی درست پیمائش کی صلاحیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماحولیاتی تحفظ کے اداروں کو مضبوط کرے، موسمیاتی انصاف کو عالمی مباحثوں میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو اس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔اس موقع پر ڈی جی آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود نے شرکاءکو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے 2022 کے تباہ کن سیلاب اور موافقت کے اقدامات کی فوری ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کا سامنا ہے۔ انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے لیے توانائی کے تحفظ کو متوازن کرتے ہوئے قابل تجدید توانائی کی منتقلی کے لیے پاکستان کے عزم پر بھی زور دیا۔ ایچ ایس ایف ایشیا کے ڈویژن کے سربراہ سٹیفن برکھارڈٹ نے پاکستان کی معیشت پر موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات اور عالمی ماحولیاتی کوششوں میں اس کے اہم کردار کا ذکر کیا۔ باکو میں اے ڈی اے یونیورسٹی کے وائس ریکٹر اور آذربائیجان پارلیمنٹ کے رکن ڈاکٹر فریز اسماعیل زادے نے پاکستان آذربائیجان تعلقات کو فروغ دینے پر آئی ایس ایس آئی کی تعریف کی اور باکو میں COP29 موسمیاتی تبدیلی کے مباحثے کے لیے ماہرین کو متحد کرنے میں اے ڈی اے کی قیادت کو اجاگر کیا۔ سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ خان نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ان کی کمزوری اور محدود وسائل کی وجہ سے درپیش بڑھتے ہوئے خطرات پر روشنی ڈالی۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے پاکستان میں ریذیڈنٹ نمائندے سیموئل رِزک نے پاکستان میں موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مقامی حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے موسمیاتی آفات کے اخراجات سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ دنیا کی محدود شراکت کو اجاگر کیا اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لیے موسمیاتی مسائل کو غیر سیاسی کرنے پر زور دیا۔موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کے ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر مظہر حیات کاپ 29 کے لیے پاکستان کی تیاریوں کا جائزہ فراہم کرتے ہوئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے، موسمیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور حکومت کی مربوط کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کاپ 29 میں خود کو ایک ذمہ دار قوم کے طور پر پیش کرے گا۔اقوام متحدہ کے ماحولیات پروگرام (یو این ای پی) کے جمیل احمد نے موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اقوام متحدہ کی مسلسل حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے سیلاب، خشک سالی اور پانی کی کمی سے زرعی شعبہ کو لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ڈائریکٹر سینٹرفار سٹریٹجک سٹڈیز ڈاکٹر نیلم نگار نے اپنے خطاب میں پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے درکار مالیاتی حکمت عملیوں اور ٹیکنالوجیز پر توجہ مرکوز کی۔انہوں نے پاکستان کے فوری موسمیاتی چیلنجز کا ذکر کیا اور گرین ٹیکنالوجیز، کلائمیٹ فنانس اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے موافقت کے اقدامات میں سرمایہ کاری کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ قزاخستان میں پاکستان کے سفیر نعمان بشیر بھٹی نے اپنے خطاب میں عالمی مالیاتی حکمت عملی خاص طور پر گرین کلائمیٹ فنڈ جیسے اداروں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے مرکزی کردار پر زور دیا۔ موسمیاتی مالیات کی ممتاز ماہر کشمالہ کاکاخیل نے کہا کہ جہاں پاکستان کے موسمیاتی ایکشن پلان اکثر اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن کے تحت ذمہ داریوں سے تشکیل پاتے ہیں، انہیں تخفیف پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈاکٹر سید محمد علی نے توانائی کی منصفانہ منتقلی پر زور دیا جو ماحولیاتی اور اقتصادی ضروریات کو متوازن بنائے۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ پاکستان کو عالمی موسمیاتی فنانس میں حکمت عملی سے فائدہ اٹھانا چاہئیے۔اختتامی سیشن میں ہینس سیڈیل فائونڈیشن پاکستان کے سینئر پروگرام مینجر محمد بلال نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے جس پر فوری توجہ اور عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ آئی ایس ایس آئی کے چیئرمین بورڈ آف گورنرز خالد محمود نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اب عالمی گفتگو کا مرکز بن چکا ہے۔ انہوں نے ترقی یافتہ دنیا کی جانب سے موسمیاتی کوششوں کے لیے گرانٹس کی بجائے قرضوں کی پیشکش پر تشویش کا اظہار کیا اور ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے موثر طریقے سے نمٹنے میں مدد کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی کی اہم ضرورت پر زور دیا