نئی دہلی:(مانٹرنگ ڈیسک )بھارت میں مسلمانوں کی املاک مسمار کرنے کی مہم 2017 میں ریاست اترپردیش سے شروع ہوئی جسکے بعد اس مہم نے مدھیہ پردیش، آسام، مہاراشٹر، اتراکھنڈ،راجستھان ، آسام، ہماچل پردیش اور ہریانہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گزشتہ 8 برسوں کے دوران کئی مساجد سمیت مسلمانوں کی ہزاروں نجی املاک مسمار کی گئیں۔کشمیر میڈ یا سروس کے مطابق وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی املاک کی مسماری کا آغاز سال 2017 میں ریاست اترپردیش سے ہوا تھا جہاں بی جے پی کے یوگی آدتیہ ناتھ وزارت اعلی کی کرسی پر براجمان ہیں۔ بعد ازاں مدھیہ پردیش، آسام، مہاراشٹر اور ہریانہ وغیرہ اور بی جے پی کی اقتدار والی دیگر ریاستوں میں بھی بلڈوزر مہم شروع کر دی گئی۔انسانی حقوق کے عالمی ادارے ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ نے فروری میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں اور عام آدمی پارٹی کی حکومت والی ایک ریاست میں اپریل سے جون 2022 کے درمیان مجموعی طور پر 128 تعمیرات کو مسمار کیا گیا۔ ان تعمیرات میں سے بیشتر مسلمانوں کی ملکیت تھیں ۔ رواں برس دہلی میں ایک مسجد، اتراکھنڈ میں ایک مدرسہ، آسام میں بنگالی بولنے والے ہزاروں مسلمانوں کی جھونپڑیوں، مدھیہ پردیش میں بڑے گوشت کی اسمگلنگ کے الزام میں مسلمانوں 11 مکانات، راجستھان کے ادے پور میں ایک مسلم طالب علم کے کرائے کے مکان اور مدھیہ پردیش کے چھترپور میں ایک مقامی مسلمان کانگریس رہنما کی کروڑوں روپے کی حویلی کو غیر قانونی قرار دے کر مسمار کیا گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اگست میں ہریانہ کے علاقے نوح میں ہندو مذہب کی ایک یاترا کے دوران تشدد کے بعد انتظامیہ نے پانچ روز تک انہدامی کارروائی کرتے ہوئے 1208 عمارتوں اور ڈھانچوں کو مسمار کر دیا تھا۔ تقریبا تمام املاک مسلمانوں کی تھیں۔رپورٹ کے مطابق محمد شہود نامی ایک شخص کی18 دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا گیا تھا۔ رواں سال جولائی میں مہاراشٹر کے شہر کولہاپور میں مسلمانوں اور ہندوﺅں میں تصادم کے بعد انتظامیہ نے مسلم ملکیت والی 60 سے 70 املاک کو بلڈوزکردیا تھا۔ گوکہ اب بھارتی سپریم کورٹ نے نجی املاک مسمار کرنے پر عبوری پابندی لگا دی ہے جبکہ انسانی حقوق کے اداروں نے اس حکم کا خیر مقدم کیا ہے ۔