اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس پر صدر مملکت نے دستخط کر دیئے ہیں، آرڈیننس سے عدالتی عمل میں مزید شفافیت آئے گی، مقدمات کی سماعت مقررہ وقت پر ہوگی، جو کیس پہلے آئے گا اس کی سماعت بھی پہلے ہوگی، تمام اصلاحات عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہیں۔ جمعہ کو یہاں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی آج چین کے روہی گروپ کے چیئرمین سے ملاقات ہوئی۔اس موقع پر حکومت پاکستان اور چین کے روہی گروپ کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کے تحت روہی گروپ پاکستان میں ٹیکسٹائل پارکس قائم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ روہی گروپ پہلے ہی 21 ماہ کی ریکارڈ مدت میں سی پیک کے تحت ساہیوال کول پراجیکٹ مکمل کر چکا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اب روہی گروپ پاکستان کے اندر ٹیکسٹائل پارکس قائم کرے گا، یہ ٹیکسٹائل پارکس سندھ اور پنجاب میں قائم کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی موجودگی میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کے تحت چین کا یہ بڑا گروپ ٹیکسٹائل پارکس میں چین کی 100 سے زائد کمپنیوں کو ٹیکسٹائل یونٹس لگانے کی دعوت دے گا۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ روہی گروپ پہلے مرحلے میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، مجموعی طور پر 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل پارکس میں ہول سیل سینٹرز بھی قائم کئے جائیں گے، مقامی طور پر 3 سے 5 لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی ہماری برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہوا ہے، ریکارڈ ترسیلات زر پاکستان آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف معاشی ترقی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ روہی گروپ کی جانب سے ٹیکسٹائل پارکس قائم کرنے سے پاکستان ٹیکسٹائل کا حب بن جائے گا اور پوری دنیا میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات ہوں گی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرز آرڈیننس پر صدر مملکت دستخط کر چکے ہیں، وفاقی کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے اس آرڈیننس کی منظوری دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس آرڈیننس کے تحت 184(3) میں آنے والے کیسز کا تحریری طور پر بتانا ہوگا کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ کیوں ہے؟، اس حوالے سے ایک باقاعدہ آرڈر جاری کیا جائے گا کہ 184(3) کے تحت کوئی کیس لیا گیا ہے تو اس میں کیا ایسی بات ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا حامل کیس ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننس کے تحت 184(3) کا جو بھی آرڈر سپریم کورٹ پاس کرے گی، اس کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اس آرڈیننس کے تحت جج صاحبان کیس کے دوران جو بھی بات کریں گے، اس کا ٹرانسکرپٹ تحریر کیا جائے گا اور یہ ٹرانسکرپٹ عوام کے لئے دستیاب ہوگا، اس سے عدالتی عمل میں مزید شفافیت آئے گی اور لوگ باقاعدہ دیکھ سکیں گے کہ کیس کے دوران کیا ریمارکس پاس کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج میں بھی عوام کو سہولت دینے کی بات کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننس کے تحت ہر کیس کو مقررہ وقت پر سنا جائے گا، جو کیس پہلے آئے گا اس کی سماعت پہلے ہوگی، بعد میں آنے والے کیس کی سماعت بھی بعد میں ہوگی، یہ نہیں ہو سکے گا کہ بعد میں آنے والا کیس پہلے سماعت کے لئے مقرر کر دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں طے کیا گیا تھا کہ چیف جسٹس اس کی قیادت کریں گے اور اعلیٰ عدلیہ کا جج اور تھرڈ سینئر ترین جج اس میں موجود ہوں گے اور یہ کمیٹی کیسز کو سماعت کے لئے مقرر کرے گی۔ اس میں تبدیلی کی گئی ہے، چیف جسٹس کمیٹی کی سربراہی کریں گے، اعلیٰ عدلیہ کے جج اس کے رکن ہوں گے اور تیسرے رکن کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ججز میں سے کسی ایک کو وقتاً فوقتاً شامل کر دیا کریں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر تیسرے رکن کی عدم دستیابی کے باعث کیسز تاخیر کا شکار ہو جاتے تھے۔انہوں نے کہا کہ 63 اے کا نظرثانی کیس آج تک التواءکا شکار ہے، یہ کیس سماعت کے لئے مقرر ہی نہیں کیا جا سکا، یہ قومی نوعیت کا معاملہ ہے، اس پر نظرثانی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی فیصلہ آجانا چاہئے تھا، یہ آئین اور پارلیمان کی بالادستی اور ملک میں انصاف کے نظام کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام اصلاحات اور ترمیم عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہیں اور اس سے عدالتی عمل مزید شفاف ہوگا۔ صدر مملکت نے آرڈیننس پر دستخط کر دیئے ہیں جو اہم سنگ میل ہے۔ اس سے عام پاکستانی کی زندگی میں بہتری آئے گی اور عدلیہ میں التواءکا شکار کیسز کو نمٹانے میں مدد ملے گی جبکہ دنیا میں ہماری عدلیہ کا رینک بھی بہتر ہوگا۔