اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ جو اپنے لیڈر کو چھڑانے نکلے تھے وہ خود بند ہو گئے، انہوں نے سیاست میں غلط روایت ڈالی، انہیں سمجھاتے تھے کہ سنبھل کر چلیں، نفرت کے بیج انہوں نے بوئے ہیں اور فصل بھی یہی کاٹیں گے۔ منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ایوان میں اپنی دائیں جانب سنسان نشستیں دیکھ کر حیران ہوں کہ کل کے واقعہ کے بعد انہیں ایسا سانپ سونگھ گیا کہ تین چار لوگوں کے علاوہ کسی نے یہاں آنے کی جرات تک نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم انہیں سمجھاتے تھے کہ سنبھل کر چلیں، تھوڑا سا خوف خدا رکھیں۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتی بینچوں سے اپوزیشن کو تقاریر سے روکا جاتا تھا، کسٹوڈین آف دی ہائوس کی بجائے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی ہدایات وزیراعظم ہائوس سے آتی تھیں اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی بتاتے تھے کہ کس کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنا ہے اور کس کا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تب بھی انہیں سمجھایا تھا کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا، انہوں نے سیاست کے اندر غلط روایات ڈالیں، یہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ خواتین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا۔ فریال تالپور کو عید سے ایک روز قبل چاند رات پر ہسپتال سے جیل بھیجا گیا اور کہا گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کے بھائی کو اذیت پہنچے، ان کے بھائی تک پیغام جائے کہ ان کی بے گناہ بہن کو ہسپتال سے جیل بھیجا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مریم نواز شریف کی ایک کیس میں بیل ہوئی اور دوبارہ کس انداز میں گرفتاری کی گئی؟ یہ کہا گیا کہ مریم نواز کو ان کے والد کے سامنے گرفتار کیا جائے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وقت شہباز شریف صاحب کے کیس کی احتساب عدالت نمبر 3 میں سماعت تھی، ہم عدالت پیش ہوئے اور استدعا کی کہ شہباز شریف صاحب کی والدہ انتقال کر گئی ہیں، آج جرح نہ کی جائے لیکن کہا گیا کہ جرح ہر صورت ہوگی۔ شہباز شریف کی والدہ کی میت گھر پر پڑی تھی اور چار گھنٹے کیس کی کارروائی چلی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کا شہزاد اکبر آج کہاں ہے جو یہاں بیٹھ کر لوگوں کی مائوں بہنوں کے خلاف کیس بناتا تھا، آج وقت آیا تو وہ ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے۔انہوں نے کہا کہ یہ آج کس بات کو روتے ہیں، انہوں نے نہ ماضی سے سبق سیکھا ہے اور نہ حال سے، ان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ ایک نام نہاد وزیراعلیٰ نے جلسے میں اداروں کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی، ان کے صوبے میں دہشت گردی پنپ رہی ہے، جنوبی خیبر پختونخوا کے اندر روز دھماکے اور حملے ہو رہے ہیں اور انہیں فکر ہی نہیں ہے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا، یہاں تو نیرو کنٹینر پر کھڑے ہو کر غلیظ زبان استعمال کر رہا تھا، ناکام جلسے کا غصہ نکالنا تھا تو اپنے لوگوں پر نکالتے، سٹیج پر چڑھ کر اداروں اور مریم نواز شریف کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی انتہائی قابل مذمت ہے، انہوں نے خواتین صحافیوں کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک نئی فلم تیار کرنے کا سوچ رہے ہیں جس کا نام ”میں لاہور نہیں جائوں گا“ ہوگا کیونکہ اب میرا خیال ہے کہ یہ لاہور جانے کا ارادہ ترک کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لشکر کشی کس بات کی ہے، ان کی ساڑھے 12 سال سے خیبر پختونخوا میں حکومت ہے، آپ خیبر پختونخوا میں پی کے ایل آئی اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جیسا ایک ہسپتال دکھا دیں، دانش سکول جیسا کوئی ایک سکول دکھا دیں، ان لوگوں نے سرکاری فنڈز بھی اپنی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال کئے۔انہوں نے کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ یہ اپنے لیڈر کو چھڑوانے آئے اور خود بند ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے بھی ان کو سمجھاتے تھے کہ نفرت اور انتقام کی سیاست مت کریں، یہ بیج انہوں نے خود بوئے ہیں، فصل بھی یہی کاٹیں گے، تب بھی انہیں کہا تھا کہ سنبھل کر چلیں لیکن انہیں ہماری بات سمجھ نہیں آئی تھی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس موقع پر ایک شعر بھی پیش کیا کہ ”دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے، اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کر گھر جانا ہے“۔