لاہور( تحریر: محمد ریاض)
نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞ وَنَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرَا ۞ وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذْنِهِۦ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ، صَلی ٱللَّهِ تعالی عَلی خَیرِ خَلقِه مُحَمَّد وَعَلی اٰلِه وَصَحبِِه وَبَارَک وسَلَّم تَسلِیماً کثیراً کثیراً. أما بعد فأعوذ بِٱللَّهِ مِنَ الشَّیطنِ الرَّجِیم ، بِسمِ ٱللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ. صدق الله العظيم
جناب صدر محترم، امیر مجلس حافظ ناصر خان خاکوانی صاحب، حضرات علماء کرام، مشائخ عظام، زعمائے قوم، بزرگان ملت، برادران امت، ختم نبوت کی شمع کے پروانوں، میرے نوجوانوں، آپ نے ہم جیسے کمزور لوگوں کی دعوت پر، اپنے خادموں کی دعوت پر جس طرح لبیک کہا ہے میں اپنا زندگی بھر آپ کے شکریہ کے لیے وقف کر دوں تب بھی میں فرزندان ختم نبوت اور اہل پاکستان کا شکریہ ادا نہیں کر سکوں گا۔
میرے محترم دوستو! آج آپ کے اس اجتماع کو کئی نسبتیں حاصل ہیں، اس وقت ربیع الاول کا مہینہ ہے وہ مبارک مہینہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور عالم پورے کائنات پر چمکا اور جس نے کائنات کے ذرے ذرے کو روشنی بخشی، آج اسی مہینے میں ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا حق ادا کرنے کے لیے اس میدان میں جمع ہیں، جس میدان کا دامن تنگ ہو چکا ہے اور لاہور کی وسعتیں آج آپ کو سلام پیش کر رہی ہیں، یہ وہی مینار پاکستان ہے یہ وہی میدان ہے جب 1940 میں یہاں پاکستان بنانے کا قرارداد پاس ہوا تھا اور آج اسی میدان میں پاکستان کو بچانے کی قرارداد پاس ہو رہی ہے۔
میرے محترم دوستو! 7 ستمبر کا دن، ہفتے کا دن، 1974 کا دن اور آج 50 سال کے بعد 2024 کا دن دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر شب خون مارنے والوں کو اپنی عاقبت کا اندازہ کر لینا چاہیے کہ پاکستان کے عوام اپنے رسول اللہ کی ختم نبوت کا دفاع کس انداز کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے آج کے اس اجتماع نے قادیانیت ہو یا لاہوریت اس کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، اب ان کو دوبارہ سیدھا کھڑا ہونے کے لیے کوئی وقت نہیں رہا، ابڑے جسم کے ساتھ نہ امریکہ ان کو سیدھا قد و قامت دے سکتا ہے نہ یورپ اس کی کمر سیدھی کر سکتا ہے نہ اسرائیل ان کو پناہ دے سکتا ہے ہم نے تعاقب کیا ہے تعاقب کرنا جانتے ہیں، سن 74 کے بعد آج 50 سال گزرنے کے باوجود بھی قوم کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور ان شاءاللہ اگلی صدی تک میں اس کی ضمانت دیتا ہوں اللہ کے فضل و کرم پر اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے کہ آئندہ صدی بھی آپ کی ہے قادیانیت کی کمر اسی طرح ٹوٹی رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت رسول اللہ کی ختم نبوت پر شب خون مارنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔
میرے محترم دوستو! بہت سے لوگوں نے کہا اسرائیل کو تسلیم کر لیا جانا چاہیے یہاں پر پاکستان میں بھی بڑے ریٹائرڈ قسم کے بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کے چیلوں نے ٹیلی ویژن سکرین پر آ کر یہ دعوت چلائی، قوم کا ذہن اس طرف موڑنے کی کوشش کی، سب سے پہلے جمعیت علماء اسلام نے کراچی میں ملین مارچ کر کے ان کی زبان ایسی خاموش کر دی ہے کہ پاکستان میں آج تک پھر ان کی زبان نہیں چل سکی ہے۔ اور اس کے بعد فلسطین میں حماس کے مجاہدوں نے جس طرح قربانیاں دے کر اسرائیلی ریاست کو للکارا ہے، فلسطین کے آزادی کے لیے آگے بڑھے ہیں، 50 ہزار شہداء چھ سات مہینوں میں دے چکے ہیں لیکن جہاں پوری اسلامی دنیا اور یورپ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے گانے بجتے رہے وہاں رباب بجتے رہے انہوں نے وہ رباب توڑ دیے ہیں وہ تمام وسائل آج دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں کہ کوئی اسلامی ملک آج کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں صرف پاکستان کے حکمرانوں کو نہیں، میں صرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو نہیں کہنا چاہتا، میں دنیائے اسلام کے حکمرانوں کو کہنا چاہتا ہوں دنیائے اسلام کے حکمرانوں کو آپ کی طرف سے پیغام دینا چاہتا ہوں (آپ کی اجازت ہے؟) اہل پاکستان کی طرف سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں، عالمی قوتوں کو عالمی برادری کو آپ کی طرف سے پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اتنے زیادہ انسانوں کا خون بہانے کے بعد بھی کیا امریکہ جس کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے عراقیوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے افغانوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے لیبیا کے عوام کا خون ٹپک رہا ہے، کیا اس کے بعد بھی امریکہ کو انسانی حقوق کی بات کرنے کا حق حاصل ہے؟! دنیا آج اعلان کر رہی ہے، اہل پاکستان اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ امریکہ انسانی حقوق کا قاتل تو ہو سکتا ہے انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا۔ میں اپنے حکمرانوں کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں، اپنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں یہ ہے پاکستان کی سوچ اگر تم نے پاکستان کا سوچنا ہے تمہیں پاکستان کی سوچ کا اندازہ ہے یہ پورے ملک کے نمائندگی کر رہا ہے تمام عوام کی نمائندگی کر رہا ہے اور آپ کو ان مینار پاکستان پر انسانوں کے سمندر کی رائے اور ان کی قرارداد کے سامنے جھکنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
میرے محترم دوستو! ختم نبوت کا مسئلہ ہے، سپریم کورٹ کا مسئلہ ہمارے مقررین نے مختلف انداز سے اس کا تذکرہ کیا یقیناً وہ ہماری ایک کامیابی ہے، اور میں چیف جسٹس کے حوالے سے یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے اپنی غلطی کا ادراک کیا اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو پھر قوم منتظر ہے کہ تفصیلی فیصلہ جلدی آئے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ان شاءاللہ تفصیلی فیصلہ بھی علماء کرام کے اعتماد کو لے کر ہی دیا جائے گا اور مختصر فیصلے کے عین مطابق ہو، علماء کرام کی رائے کو نظر انداز کر کے جس طرح پہلے آپ نے غلطی کی میں آپ کو پیغام دینا چاہتا ہوں خیر خواہی کی بنیاد پر کہ تفصیلی فیصلہ دیتے ہوئے علماء کرام کی رائے کو نظر انداز کر کے کہ غلطی نہ دہرائیں۔
میرے محترم دوستو! یہ ملک ہمارا ہے آپ کا یہ اجتماع آج ملک کی وحدت کی علامت ہے پاکستان کی وحدت کی علامت ہے، ہم کسی بھی تحریک کو اس بات کا حق ضرور دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کی بات کریں وہ اپنے مطالبات کی بات کریں لیکن اگر وہ پاکستان سے علیحدگی کی بات کرتے ہیں تو یہ اجتماع پیغام دے رہا ہے یہ بہت بڑی عوامی اسمبلی قرارداد پاس کرتی ہے کہ ہم حقوق کے لیے آپ کے ساتھ ہیں لیکن ملک کی سلامتی پر کوئی سودا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ ملک ہمارا ہے، اس ملک میں اسلام کی قدروں کو بلند ہونا ہوگا۔ سن 1973 میں آئین بنا اور سن 1973 میں اسلامی نظریاتی کونسل بنا، اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہے، اسلامی نظریاتی کونسل میں ماہرین آئین و قانون موجود ہیں، ریٹائرڈ جج موجود ہیں، آج تک ان کی سفارشات جو مکمل بھی ہو چکی ہیں اور جن پر کونسل کے اندر بھی اتفاق رائے ہے کونسل کے باہر بھی تمام مکاتب فکر کا اتفاق رائے ہے لیکن آج تک اس پر قانون سازی نہیں ہو رہی! کیا اس لیے پاکستان بنا تھا؟ اور یاد رکھیں میں آپ کو ایک بات کہہ دینا چاہتا ہوں میرے بھائیو 2018 کا الیکشن ہوا اور اب 2024 کا الیکشن ہوا دونوں کے نتائج دھاندلی کے پیداوار تھے ہم نے نہ 2018 کا الیکشن تسلیم کیا نہ 2024 کے نتائج کو تسلیم کرتے ہیں اور پیغام دینا چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی حکمرانوں کو بھی کہ تمہاری ان اسمبلیوں کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے اب اگر اہمیت ہے تو اس عوامی اسمبلی کی اہمیت ہے۔ اب فیصلے یہاں پر ہوں گے، قوانین یہاں سے پاس ہوں گے، قراردادیں یہاں سے پاس ہوں گے، ملک کے مستقبل کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے اگر تم نے امریکہ کی غلامی میں پاکستان کے مفاد کو نظر انداز کیا اگر تم نے امریکہ اور مغرب کے تمام میں ملک کی نظریاتی حیثیت کو پامال کرنے کی کوشش کی تو یہ بحر بیکراں اور یہ سیلاب اور یہ طوفان تمہیں تن کی طرح با کر لے جائے گا۔ یہ عظیم الشان اجتماع یہ صرف عوام کا اجتماع مت سمجھیے اسے لوگوں کا اجتماع مت سمجھیے یہ انقلاب کا آغاز ہے یہ انقلاب کا نعرہ ہے اور ہم یہاں سے اٹھیں گے تو انقلاب کے جذبے سے اٹھیں گے اور پھر بتائیں گے کہ اب تمہاری حکمرانی ہے یا ہماری حکمرانی ہے!
میرے محترم دوستو! آج دنیا میں ہمارے فلسطینی بھائیوں کا خون بہہ رہا ہے کسی اسلامی ملک کے حکمران میں کیوں یہ جرات نہیں ہے کہ وہ اس امت کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ اس امت کی ترجمانی کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر سکے، کیوں ان کی زبانیں گنگ ہو چکی ہے، ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ تم گنگ سہی قوم زندہ ہے ان کی آواز زندہ ہے امت زندہ ہے اور یہ اجتماع پوری امت کی آواز ہے، ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج جس میدان میں آپ بیٹھے ہیں اور جس میدان میں 1940 کی قرارداد پاس ہوئی تھی 1940 میں جب یہودی فلسطینی سرزمین پر بستیاں قائم کر رہے تھے تو بانی پاکستان محمد علی جناح کی قیادت میں اس قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہم ان بستیوں کے قیام کے خلاف ہیں اور ہم یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے، جب پاکستان کے قیام کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی تو مسئلہ فلسطین پر اپنے موقف کی بنیاد بھی ڈالی گئی اور جب پاکستان بنا تو دو واقعے سامنے آئے اس سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے اور اسرائیل کہاں کھڑا ہے۔ سن 1948 میں جب اسرائیل معرض وجود میں آیا تو قائد اعظم نے کہا کہ یہ برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے، اسرائیل برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے اور برطانیہ کا لفظ اس لیے کہ 1917 کے معاہدے دارخور کی طرف اشارہ تھا جو برطانوی وزیر خارجہ نے اس کی بنیاد اسرائیل کی بنیاد ڈالی تھی، لیکن جب اسرائیل بنا تو اس کے پہلے صدر نے اپنی خارجہ پالیسی کی جب بنیادی اصول دنیا کو متعارف کرائے تو خارجہ پالیسی کے اساسی اصولوں میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ دنیا کی نقشے پر ایک نوزائیدہ مسلم ملک کا خاتمہ یہ اسرائیل کی پالیسی کا حصہ ہوگا، پاکستان کے بارے میں اسرائیل نے کیا سوچا تھا اور اسرائیل کے بارے میں پاکستان نے کیا سوچا تھا ذرا اس تناظر میں اپنی تاریخ کو دیکھیے۔ یہ غلامانہ ذہن رکھنے والے یہ اپنی تاریخ بھی بھول جاتے ہیں یہ اپنے مفادات کے لیے نظریات بھی بھول جاتے ہیں یہ اپنے مفادات کے لیے اپنا کلمہ بھی بھول جاتے ہیں یہ اپنے مفادات کے لیے اپنا دین بھی بھول جاتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے عقیدے ختم نبوت پر شب خون مارنے والوں کو بھی اپنا بھائی کہہ دیتے ہیں یہ نہیں چلے گا اب، اس کے بعد واضح طور پر ہم نے دنیا میں ایک لکیر کھینچ دی ہے وہ نظریاتی لکیر ہوگی وہ عقیدے کی لکیر ہوگی۔
آج میرے دینی مدارس پر کیوں دباؤ ڈالا جا رہا ہے، عالمی آقاؤں کے دباؤ پر تم ہمارے دینی مدارس پر دباؤ ڈال رہے ہو، قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم کے لیے جو نصاب ہم نے متعین کر رکھا ہے وہ تمہارے آج نشانے پر ہے لیکن یاد رکھو ابھی ہم نے تمہیں نشانے پہ نہیں رکھا ہمارے تحمل کا اندازہ لگائیے ہمارے تحمل کا اندازہ لگائیے تم نے مدارس کو نشانے پہ رکھا ہوا ہے ابھی ہم نے فیصلہ نہیں کیا اور جس دن ہم نے فیصلہ کیا خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اللہ کو گواہ بنا کر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ملک چھوڑنے پر تمہیں مجبور نہ کیا تو میں فضل الرحمن نہیں! تم میرے مدرسے کی ایک اینٹ گراؤ گے، سنو! تم میرے مدرسے کے ایک اینٹ گراؤ گے میں تمہارے اقتدار کی پوری عمارت کو زمین بوس کر دوں گا۔ تم سے ملک نہیں سنبھالا جا رہا، بلوچستان تمہارے ہاتھ سے نکل رہا ہے، خیبر پختونخواہ تمہارے ہاتھ سے نکل رہا ہے وہاں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، مسلح قوتیں وہ اپنے گرفت مضبوط کر رہی ہے اپنا رٹ مضبوط کر رہی ہے اور تم لگے ہو اس کے اوپر کہ مدرسے پر پابندی کیسی لگائی جائے تم لگے ہو اس بات پر کہ قادیانیوں کو مسلمان کیسے ڈیکلیئر کیا جائے گا، تم لگے ہو اس بات پر کہ اسرائیل کو تسلیم کیسے کرایا جائے گا تمہارا باپ بھی یہ مقصد پورا نہیں کر سکے گا اور تمہارا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
میرے محترم دوستو! میں نے تو اسمبلی میں بھی کہا تھا کہ یہ جو تم لوگوں سے ٹیکس وصول کرتے ہو یہ قوم عادی ہو چکی ہے اس نے انگریز کو بھی ٹیکس نہیں دیا تھا انگریزی نظام کے تسلسل کو بھی یہ لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ہیں اور ٹیکس تب دیں گے ہم جب تم ہمیں امن مہیا کرو گے، ہمیں معیشت مہیا کرو گے، ملک کی معیشت تباہ کردی تم لوگوں نے، ملک کا امن و امان تم نے تباہ کر دیا ہے، جب تم مجھے امن نہیں دے سکتے، جب تم مجھے معاش نہیں دے سکتے کس بنیاد پر تم مجھ سے ٹیکس لینے کے حقدار بن سکتے ہو! بات اصول کی ہے بغیر اصول کے ہم بات نہیں کر رہے۔
تم میرے عقائد کو مت چھیڑو، تم میرے اسلام کو مت چھیڑو، عقیدہ ختم نبوت پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے اور سود کے خاتمے پر پوری قوم متفق ہے، وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ کیا، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک آف پاکستان نے اس کے خلاف اپیلیں واپس لی لیکن کچھ بینکوں نے اپیل دائر کی اور اس پر سٹے لیا نظر ثانی کے لیے درخواست دی۔ میں نے چند روز پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے اور میں نے ان کو بتایا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے مختصر فیصلے کے بعد جلد از جلد اپنا تفصیلی فیصلہ دیجیے اور دوسرا یہ کہ جن لوگوں نے سود کی حرمت کے حوالے سے عدالت نے فیصلے دیے ہیں اور اس کے خلاف اپیلیں دائر ہوئی ہیں ان اپیلوں کو فوراً نمٹایا جائے، عدالت نے تمام اداروں کو تمام اداروں کو یہ ہدایات کی ہیں کہ پانچ سال کے اندر اندر اپنے مالیاتی نظام کو سود کی آلائش سے پاک کر دے پھر کسی بینک کے سٹے کے اوپر کیسے آپ نے اتنا بڑا فیصلہ روکا ہوا ہے! ان شاءاللہ اس کے لیے بھی تحریک چلائیں گے، اس کے لیے بھی ہم میدان میں رہیں گے، سود کا نظام اللہ سے اور اس کے رسول سے براہ راست جنگ کا نام ہے، کیا کوئی مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کروں! کیا کوئی سوچ سکتا ہے اس کا اور اس ملک میں 77 سال سے ہم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔ کہاں سے رحمت آئے گی! دشمن پر بھی کوئی رحم کر سکتا ہے؟ ان حکمرانوں کی وجہ سے آج ہم من حیث القوم اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں جنگ پہ اترے ہوئے ہیں، ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں اور اس گناہ کی تلافی کے لیے میں پوری قوم کو متحد ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور ان شاءاللہ ہماری اگلی تحریک اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہوگی، آپ کا اتفاق رائے ہے؟ تو ان شاءاللہ العزیز عقیدہ ختم نبوت پر مجلس تحفظ ختم نبوت جس طرح پہرہ دے رہی ہے ہم اس کے شکر گزار بھی ہیں شاید ہم غافل ہوں لیکن یہ فقیر اس قلعے کے دیواروں پر کھڑے ہو کر چوکیداری کر رہے ہیں، ان شاءاللہ ہم اس تحریک کو آگے بڑھائیں گے اور یہ سلسلہ جلسوں کا چلتا رہے گا، 14 اکتوبر کو مفتی محمود کانفرنس ان شاءاللہ سندھ کے شہر میرپور خاص میں ہوگا اور ان شاءاللہ اسلامیان پاکستان اس میں بھی شرکت کریں گے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، اللہ تعالیٰ ہمارے قصوروں کو معاف فرما دے اللہ اپنے عفو و کرم کا معاملہ فرمائے۔
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین