کراچی(وقا ئع نگار خصوصی)بلدیہ عظمی کراچی کا شہر کی ترقی کے ساتھ مبینہ سنگین کھلواڑ منظر عام پر آگیا،کیش فلو کی عدم موجودگی کے باوجود 2 ارب روپے لاگت کی33 ترقیاتی اسکیموں کیلئے ٹینڈرز طلب کرلئے گئے،ایمرجنسی ورک کیلئے شارٹ نوٹس پر طلب کئے گئے ٹینڈرز میں ہنگامی بنیادوں پر سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور استر کاری کے کام کئے جانے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بلدیہ عظمی کراچی نے حالیہ بارشوں میں شہر کی ابتر صورتحال کی بہتری کے نام پر 2 ارب روپے لاگت کی33 ترقیاتی اسکیموں کیلئے ٹینڈرز طلب کئے ہیں جس میں کراچی کے تمام ڈسٹرکٹ کی سڑکوں کی مرمت ،استرکاری،سیوریج لائن سمیت دیگر مرمتی کام شامل ہیں، اس میں دلچسپ امر یہ ہے کہ کے ایم سی کے پاس 2 ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ موجود ہی نہیں ہے اس کے باوجودٹینڈرز طلب کیا جانا حیران کن ہے،کے ایم سی محکمہ فنانس کے افسران نے شہر کے ساتھ کئے جانے والے سنگین کھلواڑ کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ جن دو ارب کی اسکیموں کیلئے ٹینڈرز طلب کئے گئے ہیں ان ٹھیکوں کی ادائیگی کیلئے کے ایم سی کے پاس فنڈزموجود نہیں ،شہر کے سینئر کنٹریکٹرز کا کہنا ہے کہ فنڈ کی عدم موجودگی کے باوجود ٹینڈرز طلب کرنا قواعد وضوابط اور سیپرا رولز کیخلاف اور غیر قانونی ہے،کے ایم سی حکام فنڈ نہ ہونے کے باجود ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے بانٹ کرشہر اور شہریوں کے ساتھ سنگین کھلواڑ کررہے ہیں،اس سلسلے میں کراچی کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نعیم کاظمی اور جنرل سیکریٹری سعید مغل کا کہنا ہے کہ فنڈز کی عدم دستیابی کے باوجود ٹینڈر طلب کرکے شہریوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں سب سے زیاد ہ متاثرکنٹریکٹرز ہونگے،انہوں نے کہا کہ ادائیگی نہ ہونے پر کنٹریکٹرز بھی کام کو مزید آگے نہیں بڑھائیں گے جس سے سندھ حکومت اور بلدیہ عظمی کراچی کی ساکھ متاثر ہونے کا امکان ہے، جبکہ شہر کی ترقی کیلئے کام کرنے والے کنٹریکٹرز اپنی ادائیگیوں کیلئے بلاجواز دفاتر کے چکر لگانے پر مجبور ہونگے،نعیم کاظمی کا کہنا ہے کہ کے ایم سی پر کنٹریکٹرز کے پہلے ہی اربوں روپے واجب الادا ہیں جن کی ادائیگی کرنے کے بجائے ایمرجنسی ورک کے نام پر نئے ٹینڈرز کرکے کنٹریکٹرز کو ایک مرتبہ پھرکنگال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے