کراچی (آغاخالد)ایمپریس مارکیٹ کے عینی شاہدین دکانداروں ،پتھاری داروں، تھانہ کی پولیس رپورٹ اور مقتولہ اور ملزم کے گھروالوں سے بات چیت کرکے اپنے تیئن بہترین اسٹوری تیار کرکے دو روز بعد ہی میں زبیری صاحب کے سامنے کھڑا تھا انہوں نے اسٹوری کو دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور بولے، برابر والے کمرے میں اخلاق صاحب بیٹھے ہوں گے انہیں دیدیں اور ان سے کہیں مجھ سے بات کرلیں میں اسٹوری انہیں تھماکر کھڑا تھا انہوں نے ایڈیٹر سے بات کرکے اسی بے دلی سے کہا آپ جائیں اور اگلے ہفتے معلوم کرلی جیئے گا میں بھاری قدموں سے واپس ہولیا اب ایک ہفتہ انتظار کرنا تھا اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا یوں ایک ہفتہ بھی کروٹیں بدلتے گزر گیا اور میں پھر زبیری صاحب کے سامنے کھڑا تھا انہوں نے توقع کے مطابق پھر مجھے اخلاق صاحب کی طرف بھیج دیا، اخلاق صاحب نے میری صورت دیکھتے ہی اپنے سامنے والے کمرے کی طرف اشارہ کرکے کہا وہاں انور صاحب بیٹھے ہوں گے ان سے کہیں کہ وہ آپ کی اسٹوری سمیت مجھ سے آکر ملیں مینے یہ پیغام دینے کی خاطر انور کے کمرے کے دروازہ پر دستک دی جواب نہ پاکر اندر جھانکا تو وہاں ایک پکی عمر اور خرانٹ چہرے والا شخص ڈھیلی سی پینٹ کوٹ پہنے لیٹنے کے انداز میں کرسی پر ڈھیر ہوکر دونوں ٹانگیں شوز سمیت میز پر رکھے ہوے تھا مجھے اپنے کمرے میں جھانکتے پاکر نیم غنودگی سے اٹھتے ہوے اس نے مجھ پر چڑھائی کردی کہ تم اندر کیسے آئے تمہیں تمیز نہیں دروازہ کھٹکٹانا چاہیے تھا میری بار بار کی تمہید اور معذرت کو نظر انداز کرکے بولا تم میرے پاس آئے کیوں ہو مینے اخلاق صاحب کا اسے پیغام دیا تو وہ مزید تلملا کر اپنی دراز سے اسٹوری نکالتے ہوے بولا، یہ بے تمھاری بے ہودہ اسٹوری جو تم لکھ کر لائے ہو تمھارے خیال میں اخبار جہاں میں اب قصائیوں کی اسٹوریاں چھپیں گی کیا تم نے اسے نئی روشنی سمجھ رکھا ہے، اس حد تک تو میں برداشت کرہاتھا کہ وہ سینیر اور بڑے ادارے کا بڑا صحافی تھا مگر اس نے غصہ سے جھاگ اگلتے ہوے روا روی میں مجھے گالی بک دی یہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا مینے بھی پیپر ویٹ اٹھاکر اس کے سر پر دے مارا میرا نشانہ چوک گیا اور پیپر ویٹ دیوار میں جالگا ورنہ میں آج بھی شاید جیل میں ہوتا کیونکہ وہ بازار میں بکنے والا عام پیپر ویٹ نہیں تھا بلکہ اخباری کاغذ کے بنڈل سے نکلنے والے پٹسن کا بنا ہوا رول تھا جو خاصہ وزنی تھا اور مفت کا ملنے کی وجہ سے اخبارات کے دفاتر میں اس کا زیادہ ہی استعمال ہوتا تھا انور کے چیخنے چلانے اور محافظ کو آواز لگانے پر میں عافیت اسی میں جانتے ہوے تیزی سے سیڑھیاں اتر کر جنگ بلڈنگ سے باہر آگیا اس کے بعد اخبار جہاں میں نوکری کی امید عبس تھی، ان دنوں میں لیاقت آباد 10 نمبر پر بھورے خاں نہاری والے کے ساتھ مین روڈ کی بلڈنگ میں رہتا تھا ہم تین لڑکوں نے مل کر یہ ایک کمرہ ساڑھے 4 سو روپیہ ماہانہ کرایہ پر لیا ہواتھا جس میں اندر ہی لیٹرین غسل خانہ اور باورچی خانہ تھا میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ خالی تھا میں اپنے بستر میں گھس کر خوب رویا اور اپنی قسمت کو کوستا رہا شاندار مستقبل اپنی ایک غلطی یا جذباتی پن سے کھو بیٹھا تھا کہتے ہیں آنسو دل کا غبار دھو ڈالتے ہیں مگر ہماری نئی نسل کے جوان یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ صبر کاپھل بھی بہت میٹھا ہوتاہے اور اقتدار ،دولت، طاقت یامنصب پر اترانے والوں کو ایک روز خفت کاسامنا بھی کرنا پڑتاہے کچھ ایسا ہی منظر مجھے ایک سے زائد بار اپنی زندگی میں دیکھنے کو ملا 1985 میں والدہ کے انتقال پر سکھر منتقل ہوگیا 1994 میں محترم انور سن رائے کی ذاتی توجہ سے کراچی واپسی ہوئی انور صاحب یوں تو تھے ہی بہت شفیق اور میہرباں شخصیت کے مالک مگر مجھ پر ان کی عنایات ہمیشہ کچھ زیادہ ہی رہیں ایک روز انہوں نے مجھے کہاکہ میری گاڑی خراب ہے تمھاری موٹر سائکل پر نوائے وقت چلتے ہیں مجھے اس کے ایڈیٹر نیئر علوی سے ملنا ہے بقول انور صاحب کہ وہ ان کے اساتذہ میں سے تھے میرے پاس یاماہا کی اسپورٹس ٹریل تھی جس کی سیٹ کی تراش خراش جاپانیوں نے پیچھے بیٹھنے والی لڑکی کے لیے بنائی تھی کیونکہ وہ پیچھے سے بہت اٹھی ہوئی تھی جس کا نقد مزہ ڈرائور کو ملتا تھا اسی پر بٹھاکر میں انہیں لے گیا نوائے وقت کے ڈیفنس کھڈہ مارکیٹ کے دفتر میں داخل ہوے تو اخبار جہاں والے انور علی سامنے کھڑے تھے انہوں نے مجھے نہیں پہچانا مگر میں اس چہرے کو کیسے بھول سکتا تھا وہ سن رائے کے اچھے دوست تھے اور بعد میں پتہ چلا انور صاحب نے اسے پہلے ہی اپنی آمد کی اطلاع دیدی تھی وہ اصرار کرکے اپنے کمرے میں لے گیا سن رائے صاحب نے میرا تعارف اس طرح کروایا اور اپنے مزاج کے مطابق میری وہ خوبیاں بیان کیں جو مجھ میں تھی ہی نہیں جس پر انور علی حیران رہ گئے پھر سن رائے صاحب مجھے انور علی کے پاس بٹھاکر خود علوی صاحب سے ملنے چلے گئے اس دوران انور علی مسلسل میری خوشامد کرتا رہا کہ آپ سن رائے کے بہت قریب ہیں میری سفارش کریں کہ وہ مجھے اپنے ادارہ "پبلک” میں لے جائیں میں یہاں خوش نہیں ہوں، میں ہوں ہاں کرکے ٹالتا رہا تھوڑی ہی دیر میں سن رائے صاحب نیئر علوی سے مل کر واپس آگئے جب ہم واپس دفتر کی طرف جارہے تھے تو مینے راستے میں سن رائے صاحب کو انور علی کے متعلق اخبار جہاں کا اپنا قصہ سنایا اور اس کے پبلک میں آنے کی خواہش کا بتایا جسے سن کر پہلے تو وہ چونک گئے پھرنصیحت کرتے ہوے بولے، آغا خالد تمھارے لیے اس میں 2 سبق آموز اچھائیاں ہیں پہلا یہ کہ کسی منصب پر آنے کے بعد کبھی اپنی اوقات نہ بھولنا دوسرا یہ کہ قدرت نے اسے جو سزا دی ہے وہ کافی ہے تم انسانیت کے ناطے انور علی کو معاف کردو پھر سن رائے بولے تمھیں معلوم ہے ہمارے ادارہ میں پہلے ہی مالی بحران ہے اس لیے اس کی جگہ نہیں بن سکتی مگر تمہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ میں یہاں نیئر علوی سے صرف اس کی سفارش کرنے آیاتھا کیونکہ یہاں ادارے کے ساتھ اس کے معاملات خراب چل رہے ہیں یہ سن کر میں لرز گیا اور اسی لمحے مینے صدقے دل سے اسے معاف کردیا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاع ملی کہ انور علی نوائے وقت سے بھی نکال دیے گئے اور پھر گمنام ہی ہوگئے جانے اس بے چارے کے ساتھ کیا بیتی۔۔۔اللہ اکبر