دہرادون(مانیٹرنگ ڈیسک ) :بھارت میں انتہا پسندوں نے مسلمان پڑوسیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکالے جانے کے ایک سال بعد متاثرین مایوسی کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ انہیں اذیت دینے والے اسلام کو اس جگہ سے ہٹانا چاہتے ہیں جسے وہ ہندو "مقدس سرزمین” سمجھتے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق محمد سلیم کانپ اٹھتے ہیں جب وہ مئی 2023 میں پرولا میں اپنی مسلم اقلیتی برادری کے خلاف شروع ہونے والی مہم کو یاد کرتے ہیں۔ پرولاشمالی ریاست اتراکھنڈ میں جنگلاتی پہاڑیوں سے گھرا ہوا بظاہر نیند میں گھرا ہوا قصبہ ہے۔ محمد سلیم نے کہا کہ اگر میں اس دن فرار نہ ہوتا تو وہ مجھے خاندان سمیت قتل کردیتے ۔انتہا پسندوں نے محمد سلیم کی کپڑوں کی دکان لوٹ لی تھی ۔ اب وہ اپنے قصبے سے دور تقریبا 100 کلومیٹر دور ہریدوار شہر میں اپنے خاندان کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کیلئے جدوجہد کر رہا ہے۔راکیش تومر ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ان کے خاندان کو علاقے سے نکالنے پر جشن منایا تھا۔ریاستی دارالحکومت دہرادون میں مقیم سخت گیر ہندو قوم پرست کارکن اقلیت کے خلاف نفرت سے بھرے بیان بازی کرتے ہیں جسے وہ اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔تومر نے کہا کہ "اتراکھنڈ ہندوں کی مقدس سرزمین ہے” انہوں نے ریاست میں دریائے گنگا کے مقدس ہیڈ واٹرس کے ارد گرد واقع مزاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ سوئٹزرلینڈ سے بڑا علاقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسے کسی بھی حالت میں اسلامی ریاست نہیں بننے دیں گے، خواہ اس کے لیے ہمیں اپنی جان کیوں نہ دینی پڑے۔