خاصے لوگ یہ بات تسلیم نہیں کر پارہے ہیں کہ بنگلا دیش میں حکومت کی ہونے والی حالیہ تبدیلی دنیا میں برپا کیے جانے والے رنگین انقلابات کا حصہ ہے اور بنگلا دیش میں عوامی جذبات کو منظم کرنے اور انہیں طالبان کی شکل دینے میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے ۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ آپ کو ہر جگہ سازش ہی نظر آتی ہے ۔ حالانکہ ” بنگلا دیش کے رنگین انقلاب میں فوج کا کردار” کے عنوان سے لکھے گزشتہ آرٹیکل میں بھارتی نیوز پورٹل North East News کی 2 اگست کی خبر کا حوالہ بھی موجود ہے جس میں 3 اگست کو بلائے گئے فوج کے اجلاس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ نیوز ویب سائٹ کے ذرائع کے مطابق مذکورہ اجلاس ایک غیر ملکی حکومت کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ (جس کا ماننا ہے کہ فوج کے تمام یونٹ اب تک عوامی لیگ کی حمایت کررہے ہیں ) کی ہدایت پر طلب کیا گیا ہے ۔
اصل میں اسٹیج پر اداکار جو کچھ بھی پرفارم کررہے ہوتے ہیں ، تماشبین اسے ہی حقیقت سمجھ کر اس میں محو رہتے ہیں ۔ پردے کے پیچھے کیا کچھ ہورہا ہے اور ہدایتکار کون ہے ، اس کے بارے میں صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو اُس ڈرامے کا کردار ہوتے ہیں ۔ اکثر اداکاروں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اُس ڈرامے میں اُن کا کردار ہوتا ہے ۔ اس پورے معاملے کو ہم ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتےہیں ۔
نائن الیون سے قبل پاکستان میں فوج نے نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کیا اور اقتدار کے سنگھاسن پر جنرل پرویز مشرف کو لا بٹھایا ۔ کہا گیا کہ نواز شریف کی جانب سے پرویز مشرف کو برطرف کرنے پر فوج ناراض تھی اور اسے فوج کی بے عزتی قرار دیا گیا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کی بے دخلی میں پرویز مشرف کا اتنا دخل نہیں تھا ۔ وہ تو اُس وقت دوران پرواز فضاء میں تھے ۔ یہ تو ان کے سنگی ساتھی تھے جو فوجی انقلاب لائے اور یوں نواز شریف داخل زنداں کر دیے گئے ۔یہ تو وہ کہانی ہے جو تھیٹر پر سب کے سامنے پیش کی گئی ۔پردے کے پیچھے کیا ہورہا تھا ۔ آئیے اِسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایف بی آئی میں ایک پاکستانی ایجنٹ تھا کامران فریدی ۔ اسے پاکستان کے خلاف کام نہ کرنے کے جرم میں ایف بی آئی نے نہ صرف ایجنسی سے نکال باہر کیا بلکہ اس کی امریکی شہریت بھی چھین لی ۔ کامران فریدی ایک زبردست کردار ہے جس کے ذریعے ہم بہت کچھ دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں ۔ کراچی کے علاقے لیاقت آباد المعروف لالو کھیت میں پیدا ہونے والا کامران فریدی پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی کے صدر نجیب کا دایاں بازو اور قریبی ساتھی تھا ۔ نجیب کے مارے جانے کے بعد یہ ایم کیو ایم سے جان بچا کر ملکوں ملکوں گھومتا رہا اور بالآخر امریکی ریاست اٹلانٹا میں ایف بی آئی کے چنگل میں جا پھنسا ۔ کامران فریدی کے بارے میں جو لوگ تفصیلات جاننا چاہتے ہیں وہ یوٹیوب پر کامران فریدی کو سرچ کریں ۔ اس کی بے شمار پوڈکاسٹ مل جائیں گی جس میں یہ ساری تفصیلات خود بیان کر رہا ہے ۔ اس کے بارے میں بین الاقوامی اخبارات کی خبریں بھی مل جائیں گی ۔کامران فریدی وہ کردار ہے جو پاکستان میں امریکی مداخلت کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے ۔یہ بتاتا ہے ک12 اکتوبر 1999 سے پانچ روز قبل مجھے ایف بی آئی کے افسران نے بلایا اور کہا کہ تمہیں فوری طور پر اسلام آباد جانا ہے ۔ اِ س نے تفصیلات دریافت کیں تو بتایا گیا کہ وہاں پر فوج اقتدار پر قبضہ کر رہی ہے اور جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں لایا جائے گا ۔ کامران فریدی نے سوال کیا کہ ہمیں کیا ایکشن لینا ہےتو اسے بتایا گیا کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ ہماری رضامندی سے ہورہا ہے ۔
کامران نےاپنے افسران سے کہا کہ میں وہاں گیا اور میرے بارے پاکستانی ایجنسیوں کو علم ہوگیا تو میرے گھر والے خطرے میں آجائیں گے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم انہیں نکال لیں گے ۔ کامران فریدی نے اپنے گھر والوں کے ویزے کے بارے میں دریافت کیا تو ایف بی آئی والوں نے کہا کہ بس وہ اسلام آباد پہنچے ۔
کامران فریدی اپنی پوڈکاسٹ میں بتاتا ہے کہ وہ اسلام آباد ائرپورٹ پر اپنے گھروالوں کے ساتھ پہنچا ۔ اس کو escort کرنے کے لیے امریکی سفارتخانہ سے امریکی میرین فوجی بھی ہمراہ تھے ۔ وہ بتاتا ہے کہ ہم ائرپورٹ کے وی وی آئی پی لاؤنج (یہ لاؤنج صرف سربراہان مملکت اور انتہائی اہم مہمانوں کے استعمال کے لیے ہوتا ہے ) میں بیٹھے تھے کہ ایف آئی اے کے ایک افسر کو کچھ شک ہوا ۔ وہ میرے پاس آیا اور پاسپورٹ دکھانے کو کہا ۔ میں نے دکھا دیا ۔ اس نے گھر والوں کے پاسپورٹ مانگے ۔ وہ بھی دکھا دیے ۔ اس نے کہا کہ ان پر ویزے نہیں ہیں ۔ تو انہیں امریکی سفارتخانے کا ایک خط دکھایا جو اس کی سمجھ میں نہیں آیا ۔ ایف آئی اے کا وہ افسر ابھی کوئی ایکشن لینے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ امریکی میرین فوج کا ایک گورا سپاہی آگے بڑھا اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے واپس جانے کو کہا ۔ اِ س کے بعد ایف آئی اے کا وہ افسر خاموشی سے دُم دبا کر واپس لوٹ گیا ۔ اور یوں کامران فریدی کے گھر والے 12 اکتوبر کے فوجی انقلاب سے قبل امریکی سرزمین پر پہنچ چکے تھے ۔کامران فریدی نے بتایا کہ 12 اکتوبر کو وہ فیلڈ میں موجود تھا ۔ اس کے پاس سیٹلائٹ فون تھورایا موجود تھا اور اسے اپنے باسز کو لمحے لمحے کی پیش رفت سے آگاہ رکھنا تھا ۔ جو کچھ بھی ہورہا تھا وہ سب کچھ پاکستانی فوج اور امریکی ایجنسی کے گٹھ جوڑ سے ہورہا تھا ۔ امریکیوں کو بس ایک خطرہ تھا کہ کہیں آئی ایس آئی جس کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ضیاء الدین عباسی المعروف ضیاء الدین بٹ تھے (جنہیں مشرف کو ہٹا کر فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا ) ، عین وقت پر کام خراب نہ کردے ۔ اسی کے لیے کامران فریدی کو فیلڈ میں اتارا گیا تھا ۔
اس پورے واقعے سے میں صرف ایک بات بتانا چاہ رہا ہوں کہ کامران فریدی کو اکتوبر 99 میں آنے والے انقلاب سے محض پانچ روز قبل آگاہ کیا گیا تھا ، وہ بھی اُس وقت جب اسٹیج پر اس کے کردار کی entry کا وقت آگیا تھا ورنہ یہ کھچڑی تو بہت پہلے سے پک رہی تھی ۔ نواز شریف نے اس کی بھنک پڑنے کے بعدپرویز مشرف کو فوری طور پر برطرف کرکے ضیاء الدین بٹ کو نیا فوجی سربراہ مقرر کرکے اس کا سدباب کرنے کی کوشش کی تھی جس میں وہ ناکام رہا ۔ اس میں کچھ بھی اچانک نہیں تھا ۔میں کئی مرتبہ یہ بات لکھ چکا ہوں کہ پاکستان میں یک شخصی انقلاب اسی وقت لایا جاتا ہے جب اس خطہ میں کوئی بڑا کام ہونے والا ہوتا ہے ۔ آپ پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کے کھیل کا پہلے دن سے جائزہ لیں ، تو بہت کچھ آپ کے سامنے ازخود آجائے گا ۔کامران فریدی کے انکشافات سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسٹیج پر رونما ہونے والے واقعات اچانک نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے ان کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی ہوئی ہوتی ہے اور اُس پرفارمنس کے پیچھے پوری ایک ٹیم کی محنت ہوتی ہے ۔ اگر چیزوں کو ہم سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیں تو بہتر طور پر تصویر دیکھ سکیں گے ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔