ضروری نہیں کہ سبق حاصل کرنے کے تجربات کی بھٹی سے ہی گزرا جائے ۔ عقلمند انسان مشاہدات سے بھی سیکھتا ہے ۔ ہم بھی بنگلادیش کے حالیہ رنگین انقلاب سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ اگست کے پہلے ہفتے میں شیخ حسینہ واجد کی تخت بدری سے قبل بنگلا دیش کی فوج انتہائی متحرک تھی اور اس کے سربراہ کی سرگرمیاں بہت اہم تھیں ۔ شیخ حسینہ واجد کے خلاف بنگلا دیشی طالبان کی عوامی حمایت کا سب کو ہی علم تھا سوائے اُن لوگوں کے جو اسے جاننا ہی نہیں چاہتے تھے یا شترمرغ کی طرح آنکھ بند کیے بیٹھے تھے ۔
حسینہ واجد کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور انہیں خوفزدہ کر کے ملک سے فرار کرانے میں فوج کا کردار انتہائی اہم تھا اور فوج کے اس کردار میں بنگلا دیشی فوج کا 3 اگست 2024 کو افسران کا طلب کردہ اجلاس اہم ترین تھا ۔ اس اجلاس میں ان تمام گیریزن کے سینئر و جونیئر افسران کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جن سے تعلق رکھنے والی سپاہ کو سول حکومت کی مدد کے لیے طلب کیا گیا تھا ۔ بھارت کے نیوز پورٹل North East News نے اپنی 2 اگست کی خبر میں اس اجلاس کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ بنگلادیش کے مقامی وقت کے مطابق یہ اجلاس 3 اگست کو ڈیڑھ بجے دن طلب کیا گیا ہے اور تمام افسران کو ایک بجے نشستوں پر موجود رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس کے ذرائع کے مطابق مذکورہ اجلاس ایک غیر ملکی حکومت کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ (جس کا ماننا ہے کہ فوج کے تمام یونٹ اب تک عوامی لیگ کی حمایت کررہے ہیں ) کی ہدایت پر طلب کیا گیا ہے ۔ اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ روز کے پرتشدد ہنگاموں میں پولیس کی صفوں میں شامل عوامی لیگ کے کارکنان نے بلٹ پروف جیکٹ پہن کر مظاہرین پر پوائنٹ بلینک سے فائرنگ کی جس سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔
تین اگست کو ہونے والے مذکورہ اجلاس کی خبر آنے کے بعد سارے ہی میڈیا ہاؤسز کی دوربینوں اور خوردبینوں کا رخ اس اجلاس پر تھا مگر اس کے بارے میں روایتی طور پر وہی کچھ عوام کے سامنے آسکا جو بنگلا دیش کی ISPR نے پریس ریلیز کی صورت میں جاری کیا بلکہ اس پریس ریلیز میں سے بھی ایک اہم جملہ حسینہ واجد کی ہدایت پر سنسر کردیا گیا ۔ وہ جملہ یہ تھا کہ ” فوج عوام کے ساتھ کھڑی ہے ۔ ” یہ اسی فوج کا پریس ریلیز تھا جس نے خم ٹھونک کر 19 جنوری 2012 کو اعلان کیا تھا کہ اس نے حسینہ واجد کے خلاف فوجی افسران کی بغاوت کی سازش کو ناکام بنا دیا تھا ۔ فوج کے ترجمان مسعود رزاق نے کہا تھا کہ یہ سازش دسمبر 2011 میں ناکام بنائی گئی ۔ ترجمان کے مطابق فوجی انقلاب کی سازش پر 11 اور 12 جنوری 2012 کی شب عملدرآمد ہونا تھا ۔ یہ بات بہ صراحت بتائی گئی کہ سازشی افسران مذہبی رحجان رکھتے تھے اور وہ ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتے تھے ۔
تین اگست کو ہونے والے فوجی اجلاس کے بارے میں ڈھاکا سے نکلنے والے اخبار The Business Standard نے 20 اگست کو تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ اخبار لکھتا ہے کہ ڈھاکا چھاؤنی کے ہیلمٹ ہال میں جاری یہ اجلاس دس منٹ کے وقفے سمیت ڈیڑھ گھنٹے میں ختم ہوگیا ۔ اجلاس کا آغاز چیف آف اسٹاف وقار الزماں کی افتتاحی تقریر سے شروع ہوا جو آدھے گھنٹے جاری رہی ۔ اس میں انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر وہ سرکاری ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ تاہم انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ فوج عوام پر گولیاں چلانے میں ملوث ہے ۔ انہوں نے عوامی مقامات پر تعینات فوجی دستوں کو جاری کی گئی گولیوں اور ان کی موجودہ تعداد بتاتے ہوئے کہا کہ یہ غلط پروپیگنڈہ ہے فوجی سپاہی مظاہرین پر گولیاں برسا رہے ہیں ۔ اپنی تقریر کے دوران بنگلادیش کے فوجی سربراہ نے دو مقبول بنگالی گانوں کا بھی تذکرہ کیا ۔ ایک گانا “amito preme porinini , ptem amar upore porechhe”(I didn’t fall in love, love fell on me ) تھا ۔ اسے ہم اردو میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں پر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔ دوسرا گانا تھا ۔“Ar beshi kandale ural debo akashe”
( Will fly to the sky if I am made weep any more ) تھا ۔ اس سے حاضرین کو واضح پیغام مل چکا تھا ۔
اس کے بعد آرمی چیف نے حاضرین کو بولنے کی دعوت دی ۔ اس موقع پر موجود سینئر جرنیلوں اور بریگیڈیر وں نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اجازت لینے کے ہاتھ کھڑے کیے مگر وقارالزماں نے کہا کہ آج ہم جونیئر افسران کو سنیں گے جس پر سینئر فوجی افسران کے منہ بن گئے ۔
اخبار کے ذرائع کے مطابق کیپٹن ، میجر اور کرنل کے رینک کے چھ سات افسران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ کھُلنا اور دیگر مقامات پر ان کے خلاف جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ ذلت آمیز ہیں اور آزادی کے بعد بنگلا دیش میں فوج کے خلاف کبھی بھی اتنی غلیظ زبان استعمال نہیں کی گئی ۔ آرمی میڈیکل کور کی ایک خاتون کرنل جس کا تعلق راجشاہی سے تھا، نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی ۔ انہوں نے کہا کہ آج بنگلادیش کی ہر ماں رو رہی ہے ۔ مذکورہ کرنل خاتون مظاہرے کے دوران مارے جانے والے میر مگدھو کی ہمسایہ تھی ۔ میر مگدھو کو اتّور ماڈل ٹاؤن میں مظاہرین کو پانی پلاتے ہوئے مار دیا گیا تھا ۔ اُتّور ، ہندی لفظ اُتّر ( یعنی شمال) کا بنگالی تلفظ ہے ۔ یہ ڈھاکا کی ایک پوش آبادی ہے اور اسے ہم نارتھ ماڈل ٹاؤن شپ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تقریر کرنے والے فوجی افسران نے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں سے آنکھ نہیں ملا پارہے ہیں اور عملی طور پر سماجی بائیکاٹ کا شکار ہیں ۔ پن ڈراپ خاموشی اور اداس ماحول میں ہونے والے اجلاس میں اس وقت سب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی جب ایک کیپٹن جس نے محمد پور میں مظاہرین پر گولی چلائی تھی اور اس کی وڈیو وائرل ہوگئی تھی ، نے بتایا کہ مجھے میرے والدین ، بہن بھائیوں اور سارے رشتہ داروں نے برا بھلا کہا ۔ صرف میری بیوی نے میرا مورال بلند رکھنے کو کہا کہ میں بہت cute لگ رہا ہوں ۔ حالانکہ مجھے آج تک بچپن سے کبھی بھی کسی نے cute نہیں کہا ۔ ان سات افسران کی تقریر کے بعد اجلاس میں دس منٹ کا وقفہ کردیا گیا ۔ وقفے کے بعد دوبارہ چیف نے مائیک سنبھالا اور محض ایک جملے پر مبنی آرڈر جاری کیا کہ آج کے بعد سے کوئی فوجی کسی پر گولی نہیں چلائے گا ۔ یعنی فوج کو غیر مسلح کردیا گیا ۔یہ حسینہ واجد کے لیے ٹرننگ پوائنٹ تھا ۔ اس کے بعد بھی حسینہ واجد نے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے جاری رکھے اور 4 اگست کو تمام یونیورسٹیوں وائس چانسلروں اور اہم کالجوں کے پرنسپلوں کے ساتھ میٹنگ کی کہ طالبان کے جن کو کیسے بوتل میں دوبارہ بند کیا جائے ۔ مگر 5 اگست کو انہیں اقتدار سے جبری طور پر رخصت ہونا پڑا ۔بنگلا دیشی فوج کے 3 اگست کو ہونے والے اجلاس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ حسینہ واجد نے وقار الزماں کو 23 جون 2024 کو اس امید پر فوجی سربراہ مقرر کیا تھا کہ اس طرح سے فوج ان کے قابو میں رہے گی ۔ نہ صرف وقار الزماں سے بلکہ ان کی اہلیہ سے بھی حسینہ واجد کی قریبی رشتہ داری ہے ، اس تعیناتی کے بعد وہ طاقت کے اس منبع کی طرف سے بے فکر ہوگئی تھیں ۔ حالانکہ تاریخ بار بار Et tu, Brute? یا You too, Brutus? کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔آپ اسی آرٹیکل کے دوسرے پیراگراف میں بھارتی نیوز پورٹل North East News کی 2 اگست کی خبر کے اس حصہ پر دوبارہ غور کریں ۔ ” مذکورہ اجلاس ایک غیر ملکی حکومت کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ (جس کا ماننا ہے کہ فوج کے تمام یونٹ اب تک عوامی لیگ کی حمایت کررہے ہیں ) کی ہدایت پر طلب کیا گیا ہے ۔”
اس کا مطلب ہے کہ یہ سب scripted تھا اور فوج کی حمایت کے لیے وقار الزماں نے یہ کھیل کھیلا اورعوام کو بتایا گیا کہ حسینہ واجد کی حمایت سے دستبردار ہونے کے لیے ان پر فوج کی جانب سے اندرونی دباؤ تھا ۔ انہیں پہلے سے معلوم تھا کہ فوج کے اندر کیا sentiment ہے ، یہ عین ممکن ہے کہ اجلاس میں تقریر کرنے والے جونیئر افسران بھی پہلے سے منتخب شدہ کیریکٹر ہوں اور انہوں نے اسکرپٹ کے مطابق ماحول بنایا ہو۔ وقارالزماں نے اس اجلاس کے ذریعے ماحول بنایا ، منتخب اداکاروں کے ذریعے اسے زبان دی اور پھر اسکرپٹ میں دیے گئے فیصلے کا سارا بوجھ عوامی رائے اور فوج پر ڈال دیا ۔کس طرح سے اسکرپٹ کے مطابق ماحول بنایا جاتا ہے ، اس پر گفتگو جاری ہے ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔