اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ):وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے مائوں کے بچوں کو دودھ پلانے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں بچوں اور مائوں دونوں کی صحت کے حوالہ سے بڑے فائدے ہیں کیونکہ اس سے شیر خوار بچوں کو ضروری غذائی اجزاء کی فراہمی ہوتی ہے،ان کے مدافعتی نظام میں اضافہ ہوتا ہے اور ماں اور بچے کے درمیان جذباتی بندھن کو فروغ ملتا ہے، دودھ پلانا صحت مند نشوونما میں مدد کرتا ہے، ماں اور شیر خوار کے تعلقات مضبوط ہوتے ہے اور ا س کے مثبت معاشی اور ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم تعلیم، پالیسی اور کمیونٹی سپورٹ کے ذریعے دودھ پلانے کو فروغ دینا اور اس کی حمایت کرنا صحت مند افراد اور زیادہ پائیدار مستقبل کا باعث بن سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار رومینہ خورشید عالم نے ‘ورلڈ بریسٹ فیڈنگ آگاہی ہفتہ’ کے موقع پر پارلیمنٹرینز کے ساتھ قومی پرچار اور حساسیت کے سیمینار میں کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بدھ کو یہاں ایک مقامی ہوٹل میں تقریب کا اہتمام سیو دی چلڈرن نے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کی وزارت، ڈبلیو ایچ او، یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے اشتراک سے کیا تھا۔صحت مند غذائیت تک مائوں کی رسائی پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی صف اول پر ہے، انتہائی موسمیاتی واقعات، پانی کی کمی اور زرعی پیداوار میں تبدیلی کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان چیلنجوں کا براہ راست اثر خوراک کی حفاظت اورماں اور بچے کی غذائیت پر بھی پڑتا ہے تاہم وزیر اعظم کی معاون برائے موسمیاتی تبدیلی نے دودھ پلانے والی خواتین کو موسمیاتی تبدیلیوں بالخصوص سیلاب اور گرمی کی لہروں کے بڑھتے ہوئے اثرات سے بچانے کے لیے پالیسیوں اور ایکشن پلان کو تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ چونکہ موسمیاتی تبدیلی غربت اور غذائی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے اس لئے ہماری آبادی کے سب سے زیادہ کمزور طبقات، خواتین اور بچے غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرے میں ہیں۔ رومینہ خورشید نے تجویز پیش کی کہ اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں قومی غذائیت کے اپنے پروگراموں اور پالیسیوں میں موسمیاتی لچک کو ضم کرنا چاہیے، اس سے مراد پائیدار زرعی طریقوں کو فروغ دینا، اس بات کو یقینی بنانا کہ ہمارے کھانے کے نظام موسمیاتی جھٹکوں کے لیے لچکدار ہوں اور ہماری آب و ہوا کی حکمت عملیوں میں غذائیت کو ترجیح د ی گئی ہو، ایسا کرنے سے ہم اپنے بچوں کو غذائی قلت اور موسمیاتی تبدیلی کے دوہرے خطرات سے بچا سکتے ہیں۔وزیر اعظم کی معاون رومینہ خورشید عالم نے اس بات پر زور دیا کہ دودھ پلانا پاکستان میں زچگی، بچے اور نوعمروں کی غذائیت کو بااختیار بنانا ہماری قوم کے مستقبل کے لئے بڑا اہم ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحت کو فروغ دینے والی غذائیت کا حصول صرف ماں اور بچے کے لیے دودھ پلانے کی عمر کے دوران ایک صحت کا چیلنج نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے معاشرے، ہماری معیشت اور آب و ہوا سے پیدا ہونے والے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے لیے ہماری لچک کی ترقی کے لیے ایک سنگ بنیاد ہے۔رومینہ خورشید نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ پاکستان میں دودھ پلانے کو ہمارے بچوں کی صحت اور بقاء کو یقینی بنانے کے لیے ایک طویل عرصے سے ایک اہم عمل کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، پھر بھی ان فوائد کے باوجود زندگی کے پہلے چھ ماہ کے دوران خصوصی طور پر دودھ پلانے کا رواج اتنا وسیع نہیں تھا جتنا کہ مختلف وجوہات کی بناء پر ہونا چاہیے۔ رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ ماں بچے کی صحت کی پالیسی ساز، پریکٹیشنرز اور بچوں کے حقوق کے کارکنان کو اس طرز عمل کی حفاظت اور فروغ کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھانا چاہیے کیونکہ صحت مند بچے صحت مند معاشرے کا مرکز ہوتے ہیں رومینہ خورشید عالم نے اس بات پر زور دیا کہ اس کے لیے تمام شعبوں صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد، کمیونٹی رہنمائوں، پالیسی سازوں اور میڈیا کی اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے تاکہ ایسا ماحول پیدا کیا جا سکے جہاں مائیں دودھ پلانے کے لیے بااختیار ہوں۔ وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم نے خبردار کیا کہ خاص طور پر دیہی اور کم سہولیات سے محروم علاقوں میں جہاں صحت کی دیکھ بھال اور معلومات تک رسائی محدود ہو سکتی ہے، معاون مائوں کو ایسی پالیسیاں جو کام کرنے والی مائوں کو سپورٹ کرتی ہیں۔وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر نے تجویز پیش کی کہ پاکستان جہاں خواتین معیشت اور گھر دونوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، یہ پالیسیاں اہم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مائوں اور ان کے بچوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ زیادہ پیداواری اور لچکدار افرادی قوت میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ حکومتی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ حکومت نے زچگی کی چھٹیوں کی پالیسیوں کو بڑھا کر اور کام کی جگہوں کو مزید خاندان دوست طرز عمل اپنانے کی ترغیب دے کر اس کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں تاہم حکومت وسیع ترخاص طور پر نجی شعبے میں نفاذ پر زور دے رہی ہے اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یہ پالیسیاں ملک کے تمام حصوں میں خواتین کے لیے قابل رسائی ہوں۔پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر شاہدہ رحمانی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دودھ پلانے کے تحفظ کے سلسلے میں ہمیں اس وقت جو اہم چیلنج درپیش ہے وہ ماں کے دودھ کے متبادل دودھ کی ہونے والی بڑے پیمانے کی یعنی جارحانہ مارکیٹنگ ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں یہ مسئلہ خاص طور پر شدید ہے، وسیع پیمانے پر مارکیٹنگ کے ساتھ جو اکثر کمزور مائوں کو نشانہ بناتی ہے جس سے وہ یہ مانتی ہیں کہ فارمولا دودھ ایک بہتر آپشن ہے، چھاتی کے دودھ کے متبادل کی مارکیٹنگ کا بین الاقوامی ضابطہ ان طریقوں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ایک عالمی معیار ہے اور پاکستان نے اسے برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دودھ پلانے کی حفاظت صرف صحت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ڈاکٹر شاہد رحمانی نے تجویز پیش کی کہ پاکستان میں زچگی، بچے اور نوعمروں کی غذائیت کو بااختیار بنانے کے لیے ہماری وابستگی کی جڑیں ہماری ثقافتی اقدار میں ہونی چاہیئں جو کہ مضبوط پالیسیوں کی مدد سے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہماری کوششوں سے تقویت پائیں۔