کراچی( ہیلتھ رپورٹر) پاکستان بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کو مفت علاج اور طبی معاونت فراہم کرنے کے لئے 3,000 ذیابیطس کلینکس کا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے۔ اس نیٹ ورک کے تحت روزانہ تقریباً 75,000 مریضوں کو بلا معاوضہ علاج اور رہنمائی فراہم کی جائے گی۔نیشنل ڈائبٹیز نیٹورک کے تحت چلنے والے ان کلینکس میں مریضوں کو 50 فیصد رعایتی قیمت پر ادویات اور انسولین بھی فراہم کی جائے گی۔اس بات کا انکشاف معروف ماہر ذیابطیس اور ہیلتھ پروموشن فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین پروفیسر عبدالباسط نے ہفتے کے روز کراچی کے مقامی ہوٹل میں نیشنل ڈائبٹیز نیٹ ورک کے تحت قائم ہزار مفت ڈائبٹیز کلینک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب سے نیشنل ڈائبٹیز نیٹ ورک کو تکنیکی اور مالی معاونت فراہم کرنے والی کمپنی گیٹس فارما کے مینیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود، میری صحت کے چیف ایگزیکٹو افیسر بابر راشد، خرم حسین اور ملکی و غیر ملکی ماہرین امراض زیابیطس نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ آج انہوں نے ہیلتھ پروموشن فاؤنڈیشن کے تحت نیشنل ڈایابیٹیز نیٹ ورک (NDN) کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے، جو کہ پاکستان کے پہلے مصنوعی ذہانت پر مبنی ہیلتھ کیئر پلیٹ فارم میری صحت اور گیٹس فارما کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ نیٹ ورک ملک بھر میں لاکھوں افراد کو ذیابیطس کا معیاری علاج اور دیکھ بھال فراہم کرے گا کیونکہ اس وقت پاکستان میں لاکھوں افراد شوگر کے مرض کا علاج نہ ہونے کے باعث مستقل معزور اور قبل از وقت موت کا شکار ہو رہے ہیں۔پروفیسر عبدالباسط نے کہا کہ کراچی میں این ڈی این کے تحت چلنے والے چند کامیاب بہت شکریہ بہت شکریہ کلینکس کے تجربے کی بنیاد پر پورے ملک میں 3,000 مقامات پر کلینکس قائم کیے جا رہے ہیں اور خاص طور پر ان علاقوں کو چنا گیا ہے جہاں پر صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر کلینک روزانہ 25 ذیابیطس مریضوں کو مفت مشاورت فراہم کرے گا اور اس طرح تین ہزار کلینکس پر روزانہ 75 ہزار افراد کو علاج کی مفت سہولیات میسر آئیں گی۔”ہم پورے پاکستان میں روزانہ 75,000 لوگوں کو مفت مشاورت فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان مریضوں کو 50 فیصد رعایت پر دوائیں، انسولین اور 25 فیصد رعایت پر لیبارٹری ٹیسٹ فراہم کیے جائیں گے، جس کے لئے چغتائی لیب کے ساتھ شراکت داری کی گئی ہے”، پروفیسر باسط نے وضاحت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ این ڈی این نجی شعبے کی جانب سے شروع کیا جانے والا دنیا میں صحت کا سب سے بڑا مفت نیٹ ورک ہوگا۔پروفیسر عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان میں ہزاروں افراد پاؤں کے زخموں اور ذیابیطس کے کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے معذوری کا شکار ہوتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ علاج اور ادویات کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے”روزانہ تقریباً 35-40 افراد ذیابیطس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی ٹانگیں اور پاؤں کٹوا بیٹھتے ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اس سال کے آخر تک 600,000 افراد کی ٹانگیں کٹنے کا خطرہ ہے”، انہوں نے خبردار کیا اور معاشرے کے تمام طبقوں سے ان سے ابھی تک کے علاج کے لیے کیے گئے اقدامات کی حمایت کرنے کی اپیل کی۔گیٹس فارما کے مینیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود نے پاکستان کے صحت اور سماجی ترقی کے اشاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحت کی صورتحال اور حالات کچھ افریقی ممالک سے بھی بدتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جوہری طاقت ہونے کے باوجود، پاکستان کو ویکسینیشن کی کوریج، غذائیت، اور زچہ و بچہ کی صحت کے شعبوں میں چیلنجز کا سامنا ہے۔خالد محمود کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کے لحاظ سے پاکستان عالمی سطح پر چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، ۔ پاکستان کا صحت کا نظام خاص طور پر دیہی علاقوں میں کم وسائل کا شکار ہے، جہاں تربیت یافتہ ماہرین ذیابیطس اور ضروری ادویات تک رسائی محدود ہے۔ گیٹس فارما ذیابیطس کی دیکھ بھال کو زیادہ قابل رسائی بنانے کے لئے ضروری ادویات اور انسولین کو سبسڈی پر فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔میری صحت کے سی ای او بابر رشید نے ذیابیطس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے نوجوانوں کی وقت سے پہلے ہونے والی اموات پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شوگر کے مرض کے باعث پاکستان میں لوگ کم عمری میں انتقال کر رہے ہیں اور ایسے نوجوانوں کو ان کے والدین اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ والدین کو اپنے بچے کو دفن نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ شوگر ایک قابل علاج بیماری ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے، میری صحت نے ایک جدید ذیابیطس مریض مینجمنٹ سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو ڈاکٹروں کو متعدد کلینکس کا دور سے انتظام کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس سے اخراجات کم ہوتے ہیں اور بہتر علاج میسر آتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر ذیابیطس کے ڈیٹا کو پاکستان کے ذیابیطس رجسٹری (DROP) میں ضم کرے گا۔