سانحہ کارساز کے حوالہ سے اب تک نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت ساری منفی اور مثبت معلومات سامنے آئی ہیں۔ موصوفہ کے بارے میں حتمی اطلاعات جو کہ وہ ایک الیٹ کلاس خاندان سے تعلق رکھنے والی شہزادی ہے۔
لائسنس بھی نہیں تھا اوپر سے بتایا جاتا ہے کہ شہزادی نشہ کے زیر اثر تھی یہ بھی اطلاعات سامنے آئیں ہیں کہ غالباً وہ کسی ذہنی مرض بھی مبتلا ہے۔ بہرحال ہمیشہ کی طرح حادثہ میں ہلاک اور زخمی ہونے والے غریب الوطن ہیں۔ ماضی میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اشرافیہ اور ان کی اولادیں پاکستان کی سڑکوں کو موت کا کنواں سمجھتے ہوئے کسی کو بھی روند کر قبرستان یا ہسپتال بھیجنے کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔
مختصر یہ کہ شہزادی صاحبہ نے غریب پاپڑ بیچنے والے کو بیٹی سمیت گاڑی کے نیچے روند ڈالا ہے۔ دیگر زخمیوں کے بارے میں متضادات اطلاعات سننے میں آرہی ہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ ہمیشہ کی طرح ہسپتال والے پولیس کے ساتھ مل کر شراب کو شہد اور شہزادی کو ذہنی طور پر مفلوج قرار دیتے ہوئے مقدمہ کو کمزور کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہونگے۔ زبان عام قصاص و دئیت کی باتیں گردش کررہی ہیں ایسے میں عدلیہ ہمیشہ کی طرح شواہد اور انویسٹیگشن رپورٹ کی روشنی میں کوئی سخت فیصلہ کرنے سے قاصر ہوگی اور یوں تمام کاروائی کا فائدہ الیٹ کلاس کی شہزادی کو ہوگا۔
یہ تو تھی تمہید اب آتے ہیں اصل مدعے کی طرف اس طرح کے حادثات اب پاکستان میں عام طام ہوگئے ہیں الیٹ کلاس اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے عام آدمی کو کتا بلّی سے بھی کم درجہ دیا ہوا ہے۔ وہ اپنے پالتو جانوروں کی دیکھ بھال اور کھانے پینے پر سالانہ اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس انسان یعنی عام آدمی کی وقعت ان کی نظر میں کچھ بھی نہیں وہ جانتے ہیں کہ عام آدمی کی قیمت چند روپے سے زیادہ نہیں اور اگر کسی حادثات کی صورت میں عام آدمی مارا گیا تو اسلامی قوانین قصاص و دئیت کا سہارا لیتے ہوئے جان بخشی کروا لیں گے۔
بیشک پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ہمارے یہاں عدلیہ میں اکثر بالخصوص قتل جیسے مقدمات اسلامی شریعت کے احکامات کی روشنی میں جیسے قصاص و دئیت کے قوانین کا سہارا لیتے ہوئے مجرمان کے خاندان کے لوگ مقتولین کے لواحقین سے معاملات طے کرنے کے بعد استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں الیٹ کلاس اور اشرافیہ نے قصاص و دئیت کے احکامات کو اپنے گھناؤنے جرائم پر سزاؤں سے محفوظ رہنے کا محفوظ راستہ نکال سمجھا ہوا ہے۔ اور گزشتہ سات دہائیوں سے قصاص و دئیت کے قوانین کو جس اذیت ناک طریقہ سے اشرافیہ نے قتل کرنے کے بعد سزاؤں سے بچنے کیلئے استمعال کیا ہے وہ خوفناک ہے۔
لہذا اب عدلیہ کو دیکھنا ہوگا کہ کسی بھی حادثہ میں ہلاک ہونے والے لوگ اتفاقی حادثہ کی صورت میں ہلاک ہوئے ہیں یا عمداً کسی لاپرواہی یا انسانی غفلت برتنے اور کسی قسم کے تکبرانہ گھمنڈانہ رویوں کے سبب انسانی جانوں کا زیاع ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں عدلیہ فریقین کے مابین قصاص و دئیت کے تحت کئیے گئے کسی بھی معاہدے کو رد کرتے ہوئے حادثات میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزائیں دیتے ہوئے حکومت وقت کو پابند کریں کہ وہ حادثہ کے مقتولین کے ورثاء کو معقول ہرجانہ ادا کرنے کرے۔
اگر مقتولین کے لواحقین کو یقین کامل ہوگا کہ اعلی عدالتی نظام ہمیں انصاف دے گا اور حکومت ان کی داد رسی کریں گی تو وہ کسی بھی صورت میں اپنے پیاروں کے قاتل سے قصاص و دئیت پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اگر عدالتی نظام میں اس پر نہ سوچا گیا تو مستقبل میں ہر اشرافیہ کے پاس پیسوں کے بل بوتے ان کے پاس عام آدمی کو مارنے کا لاٹسنس ٹو کِل ہاتھ میں ہوگا۔ اور وہ دندناتے ہوئے لوگوں کو مارتے پھریں گے اور قصاص و دئیت دے کر عام لوگوں کو مذاق اڑائیں گے۔