تحریر:آغا نیاز مگسی
گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہونے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار عطاء الله خان عیسیٰ خیلوی 19 اگست 1951 میں ضلع میانوالی کے قصبہ عیسیٰ خیل کے محلہ بھنبھراں کے ایک متوسط طبقہ کے خاندان احمد خان نیازی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ نیازی پٹھان قوم کا ایک مشہور قبیلہ ہے لیکن یہ لوگ پشتو زبان کی بجائے سرائیکی زبان بولتے ہیں ۔ عطاء الله خان عیسیٰ خیلوی کی دو بہن اور دو بھائی ہیں ۔ ان کے چھوٹے بھائی کا نام ثناء الله خان ہے ان کی بڑی بہن فوت ہو چکی ہیں چھوٹی بہن گورنمنٹ اسکول ٹیچر ہیں ۔ عطاء الله نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ انہیں بچپن سے ہی گانے بجانے سے دلچسپی تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانے کی بجائے موسیقی سے اپنے شوق کا اظہار کرتے ہوئے گانا سیکھنے کی اجازت مانگی مگر ان کے والد صاحب نے سخت ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ گانا بجانا میراثیوں یعنی ڈھول بجانے والوں کا کام ہے ۔ ان کے والد ان کو اعلیٰ تعلیم دلا کر آفیسر بنانے کے خواہش مند تھے مگر عطاء الله 1975 میں گھر سے نکل کر کراچی پہنچ گئے ۔ یہاں 10 روپے ماہانہ کرایہ کے ایک کمرے میں رہائش اختیار کی ۔ دن کو مزدوری کرتے تھے اور رات کو گانا سیکھنے کی کوش کوشش کرتے تھے ۔ 2 سال بعد اپنی بڑی بہن کی وفات کی اطلاع ملنے پر اپنے گاؤں گئے ۔ چند روز رہنے کے بعد والد سے دوبارہ گانا گانے کی اجازت مانگی مگر اب بھی والد نہیں مانے عطاء الله کی ضد دیکھ کر انہوں نے کہا کہ اگر تم گانا ہی چاہتے ہو تو اس گھر میں تمھارے لیے گنجائش نہیں ہے اور گلوکار بننے کی صورت میں اپنا قبیلہ نیازی ظاہر نہیں کرنا جس کے بعد وہ لاہور چلے گئے اور یہاں وہ دن کو ہوٹلوں میں بیراگیری کرتے اور رات کو موسیقی کی تربیت حاصل کرنے لگے۔ کچھ عرصہ ٹرک کے کلینر بنے اور کچھ عرصہ کرایہ کا رکشہ چلانے لگے۔
1978 میں عطاء الله کو ریڈیو پاکستان بہاولپور میں گانے کا موقع مل گیا جس کا معاوضہ انہیں 25 روپے کے چیک کی صورت میں دیا گیا۔ 1979 میں ان کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھا جب فیصل آباد کے ایک رہائشی چوہدری رحمت علی نے عطاء الله کا اپنے خرچے پر آڈیو کیسٹ کا البم ریکارڈ کروایا جس کی پہلی غزل نے ہی دھوم مچا دی جس کے بول تھے
ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا
ادھر زندگی ان کی دلہن بنے گی
اس البم میں عطاء اللہ خان نے اپنے والد کے حکم کے مطابق اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھا بلکہ اپنے قبیلے کی بجائے اپنے گاؤں کی نسبت سے عیسیٰ خیلوی لکھوایا اور یہیں سے وہ عطاء الله خان عیسیٰ خیلوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ عطاء الله خان کی شہرت اور مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا یہاں تک وہ بین الاقوامی سطح پر مشہور ہو گئے۔ وہ اردو، سرائیکی، سندھی ، پنجابی سمیت متعدد زبانوں میں گاتے ہیں لیکن ان کی اصل شہرت اردو اور سرائیکی زبان کی گائیکی میں ہے وہ اب تک 100 سے زائد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔ 1992 میں لندن میں ملکہ برطانیہ نے ان کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا جبکہ 1994 میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ آڈیو کیسٹ البم ریکارڈ کرانے پر ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا ۔ عطاء الله خان نے یکے بعد دیگر 5 شادیاں کیں جن میں سے انہوں نے 3 بیویوں کو طلاق دے دی ہے اور 2 بیویاں ان کے عقد میں ہیں جن میں ایک معروف فلمی اداکارہ بازغہ اور ایک بیوی تونسہ شریف کے ایک اعلیٰ طبقے کے خاندان سے ہے۔ بازغہ اپنے بچوں سمیت انگلینڈ میں مقیم ہے جبکہ عطاء الله خان اپنی دوسری بیوی کے ساتھ لاہور میں مقیم ہیں ۔ ان کے چھوٹے بھائی ثناء اللہ خان نیازی راولپنڈی میں مقیم ہیں ۔ عطاء الله خان عیسیٰ خیلوی کے چار بچوں میں دو بیٹے سانول، بلاول اور دو بیٹیاں لاریب اور فاطمہ ہیں سانول خان نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فن گائیکی کو اپنا لیا ہے ۔ عطاء الله خان نے کچھ عرصہ فلموں میں اداکاری بھی کی مگر وہ اس شعبے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے جس کے بعد انہوں نے اپنی تمام تر توجہ موسیقی پر دے دی۔ انہوں نے کچھ عرصہ سیاست میں بھی گزارا پہلے پاکستان پیپلز پارٹی میں اور اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں ۔ پی ٹی آئی میں انہوں نے عمران خان نیازی کے بارے میں یہ گیت گایا
آئے گا عمران ہے سب کی جان
بنے گا نیا پاکستان
اس گیت کی وجہ سے عمران خان اور پی ٹی آئی کی مقبولیت میں بڑا اضافہ ہوا لیکن پی پی پی کی طرح وہ پی ٹی آئی سے بھی مایوس ہو کر سیاست سے الگ ہو گئے لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لہو کو گرمانے کے لیے ان کا گایا ہوا یہ گیت اب بھی اسی طرح مقبول ہے ۔
عطاء الله خان عیسیٰ خیلوی کے گائے ہوئے ہزاروں گیت، غزلوں اور گانوں سے چند گیت اور غزلوں کے بول قارئین کی نذر
ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا ادھر زندگی ان کی دلہن بنے گی
قمیض تیڈی کالی تے سہنی پھلیں والی
عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں کس قدر چوٹ کھائے ہیں
انج پنڈی تے پشور لگا جاندا عیسیٰ خیل دور تے نئیں سجناں
ایہہ تھیوا مندری دا تھیوا
چن کتھاں گزاری ہے رات وے
بے وفا یوں تیرا مسکرانا بھول جانے قابل نہیں ہے
ہمیں چھوڑ دیاکس دیس گئے پیا لوٹ کے آنا بھول گئے
نکی دی گل توں رسدائیں ڈھولا تیڈی کمال اے
دونوں کو آ سکی نہ نبھانی محبتیں
اب پڑ رہی ہیں ہم کو بھلانی محبتیں