بنگلا دیش کی حالیہ طلبہ تحریک کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ یکم جولائی 2024 میں شروع ہوئی اور صرف ایک ماہ کے قلیل عرصے میں اپنا مقصد حاصل کرچکی تھی ۔ کسی بھی انقلاب پسند کے لیے یہ عرصہ بڑا مسحورکن ہے ۔ حقائق دیکھیں تو اس کے برعکس ہیں ۔ دیکھنے میں طلبہ کا نعرہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ تھا تاہم اصل میں یہ حسینہ واجد کے خلاف ایک تحریک تھی ۔ آخر میں حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کی پیشکش کی تھی مگر احتجاجی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ حسینہ واجد کے حکومت کے خاتمے کے علاوہ اور کسی چیز پر رضامند نہیں ہوں گے ۔اس طرح سے دیکھا جائے تو حسینہ واجد حکومت کے خلاف مظاہرے یا احتجاجی مہم کوئی نئی چیز نہیں تھے ۔ اس کا باقاعدہ آغاز 2022 میں ہوا تھا جو کسی نہ کسی صورت تسلسل کے ساتھ جاری رہا ۔ گو کہ 10 دسمبر 2022 کو شروع ہونے والے متحدہ حزب اختلاف کی احتجاجی لہر میں اتنی شدت نہیں تھی کہ وہ ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیتی تاہم یہ مظاہرے جاری رہے ۔ مگر نومبر اور دسمبر 2023 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا پُر تشدد عنصر شامل ہوچکا تھا ۔ شاید اس کی وجہ آئندہ جنوری ہونے والے انتخابات تھے جس کی وجہ سے حسینہ واجد مخالف عناصر نے اپنا پورا زور لگا ڈالا تھا ۔ چونکہ حزب اختلاف کو انتخابات میں کامیابی کا یقین تھا اس لیے ہر اس کام سے گریز کیا گیا جس سے عام فرد کو تکلیف پہنچے اور ان کی مقبولیت میں کمی آئے اس لیے ان مظاہروں میں تشدد کا عنصر محدود تھا ۔ 7 جنوری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں حسینہ واجد انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال کرکے اپنے آپ کو مسلسل چوتھی بار منتخب کروا چکی تھیں ۔ اس سے حزب اختلاف کا صبر جواب دے گیا ۔حسینہ واجد مسلسل وزیر اعظم چلی آ رہی تھیں ، بھارت میں مودی سے ان کے برادرانہ گہرے تعلقات تھے ۔ علاقے میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیوں کی بناء پر وہ چین کی بھی آنکھ کا تارا تھیں ۔ عدلیہ پر بھی پورا قابو تھا کہ تمام جج صاحبان فیصلہ لکھنے سے قبل پوچھتے تھے کہ کیا لکھ دوں ۔ انہیں صرف ایک ہی چیز سے خطرہ تھا اور وہ فوج تھی ۔ اس کے لیے انہوں نے یہ پیش بندی کی تھی کہ سپہ سالار ایک ایسے شخص کو مقرر کیا تھا کہ نہ صرف اس سے بلکہ اس کی اہلیہ سے بھی ان کی قرابت داری تھی ۔رہ گئی حزب اختلاف تو اس کا علاج مودی ڈاکٹرائن کے مطابق کچل کر رکھ دینا تھا جس پر وہ ایک عشرے سے زاید عرصے سے کامیابی سے عمل پیرا تھیں ۔ جماعت اسلامی کی چوٹی کی لیڈر شپ کو کٹھ پتلی عدلیہ کے ذریعے سولی چڑھا چکی تھیں ۔ جماعت اسلامی کے کارکنان پابند سلاسل تھے ۔ ان کی سب سے بڑی حریف خالدہ ضیاء بھی سلاخوں کے پیچھے زندگی کے دن گن رہی تھیں ۔ اس طرح عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں کے علاوہ دیگر ساری جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا ۔ حزب مخالف کے لیے نہ جائے رفتن اور نہ پائے ماندن جیسی صورتحال تھی ۔حزب اختلاف کی ساری ہی پارٹیاں حسینہ واجد کو تخت و تاج سے بے دخل کرنے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں تھیں ۔ ایسے میں ضرورت سے زیادہ پر اعتماد حسینہ واجد کے جون 2024 میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کی بحالی کے فیصلے نے انہیں یہ موقع فراہم کردیا ۔ بیروزگاری سے پریشان بنگلہ دیشی طلبہ و نوجوان پہلے ہی روزگار کے کم مواقع کی دستیابی سے بیزار تھے کہ 5 جون 2024 کو بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے 2018 کے عدالتی فیصلے کے خلاف حکومت کی اپیل پر فیصلہ کرتے ہو ئے سرکاری ملازمتوں میں ہر قسم کا کوٹہ کو بحال کردیا ۔ یہ کٹھ پتلی عدلیہ کا ایسا کارنامہ تھا جس کے بعد حسینہ واجد کو مزید کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہی ۔ اس پر مزید تڑکا یہ لگا کہ سرکار کی ایماء پر اس فیصلے کے خلاف اپیل کو عدالت میں سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کیا جارہا تھا۔حسینہ واجد کے بطور وزیر اعظم پورے پانچ سال باقی تھے اور انہیں ہٹانے کا کوئ اور آئینی طریقہ موجود نہیں تھا ۔ اس لیے اس موقع کو غنیمت جانا گیا اور پورے بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی طلبہ تنظیمیں متحرک کر دی گئیں اور یوں طلبہ تحریک شروع ہوگئی ۔ گو کہ حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے حسینہ واجد نے 19 جولائی کو بذریعہ ہائی کورٹ 5، جون کے فیصلے کو منسوخ کر وادیا تھا مگر اب پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ چکا تھا اور بات حسینہ واجد کی بے دخلی پر آ گئی تھی ۔کہا گیا کہ احتجاجی طلبہ کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ۔ اس کے لیے ایک غیر سیاسی طالب علم رہنما ناہید اسلام کا کردار اسکرپٹ میں شامل کیا گیا ۔ مگر حقیقت حال سے واقف سارے ہی لوگ جانتے ہیں کہ اس احتجاج میں جماعت اسلامی اور خالدہ ضیاء کی نیشنلسٹ پارٹی کی طلبہ تنظیموں کا کردار کلیدی تھا ۔ جماعت اسلامی کے کارکنان اس لیے زیادہ جذباتی تھے کہ ان کے رہنماؤں کو حسینہ واجد نے پھانسیاں دی تھیں ، اب بھی کئی رہنما پھانسی گھاٹ میں موجود تھے جبکہ اس کے ہزاروں کارکنان قید و بند میں تھے ۔ اگر حسینہ واجد کےخلاف طلبہ کی حالیہ تحریک میں جماعت اسلامی کے کردار کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں وہ اُسی طرح استعمال ہوگئے جس طرح بھٹو کے خلاف نظام مصظیٰ تحریک میں ۔ نظام مصطفیٰ تحریک میں بھی جماعت اسلامی پاکستان کے ہاتھ کچھ نہ آیا ۔ نہ اقتدار اور نہ ہی نظام مصطفیٰ ۔ بس انہیں بھٹو کے مظالم سے ایک breathing space مل گئی ۔ بالکل یہی کچھ بنگلا دیش میں بھی جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا ۔یہ تھا بنگلا دیش میں طلبہ تحریک کا اختصار کے ساتھ جائزہ ۔ اس کو دیکھ کر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا یہ طلبہ تحریک کی شدت تھی کہ حسینہ واجد کو اس حال میں ملک چھوڑنا پڑا کہ ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا یا اس کامیابی میں کوئی اور عنصر بھی موجود تھا۔اس سوال کا جواب دیگر تمام سوالات کے جوابات کے ساتھ آخر میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔