اس وقت میرے سامنے یوم آزادی کے موقع پر دیئےگئے ایوارڈز کی تفصیل ہے ۔ان میں سے تو کچھ وہ شہداء ہیں جنہوں نے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اپنی جان دے دی اور کچھ بیوروکریٹس ہیں جنہوں نے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے لوگوں کی جان لے لی۔مجھے ان ایوارڈز کی تو بالکل سمجھ نہیں آئی کہ یہ سبھی تنخواہیں اور لمبی مراعات اور لمبے سیر سپاٹے کرنے والوں کو کس حوالے سے ایوارڈز سے نوازدیا گیا کہ ان میں سے کوئی ذوالفقار چیمہ بھی تھا جس نے اپنے مفاد پر ریاست کے مفاد کو ترجیح دی ۔ مختلف علاقوں میں اپنی پوسٹنگ کے علاوہ جب پاسپورٹ کا محکمہ ان کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے اس تباہ شدہ ادارے کو صرف تین ماہ کے دوران دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا خیر یہ چیمہ صاحب تو یونہی درمیان میں آ گئے۔وہ کب سے ستارہ امتیاز بادل نخواستہ جیب کی کسی اندرونی جیب میں چھپائے بیٹھے ہیں کہ اس سے بڑے ’’ستارے‘‘ تو انہیں ملے ہیں جن کے ستارے کسی دور میں بھی گردش میں نہیں آتے۔
چلیں اب اس تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں بہت بڑے بڑے ایوارڈ صنعت کاروں اور کچھ بدنام زمانہ شخصیات کو عطا کئے گئے ہیں۔پاکستان سے باہر ایک بڑا ایوارڈ جس شخص کو دیا گیا وہ عمر فاروق ہیں ان کا گھڑیوں کا کاروبار ہے اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عمران خان سے توشہ خانے کی گھڑی خریدی تھی ،گریٹ! اگر اس ایوارڈ کا کسی ذریعےسے پہلے پتہ چل جاتا تو بہت سے لوگ عمران خان کے پاس پہنچ جاتے اور منہ مانگے دام پر ان سے گھڑی خریدتے!
اس کے علاوہ کچھ خبرنہیں کہ پنجاب سےکسی دوسرے ذی شان کو ریاست کی طرف سے ایوارڈ سے نوازا گیا، ایک نام سامنے آیا اور یہ نام جاوید جبار کا ہے۔ان کا تعلق پنجاب سے نہیں سندھ سے ہے مگر چونکہ ٹھان لی گئی تھی کہ انہیں نوازنا ہے چنانچہ انہیں پنجاب کے کوٹے سے ایوارڈ دے دیا گیا ،بہت معذرت کہ ادب، موسیقی ،مصوری، مجسمہ سازی وغیرہ ایسے اہم شعبوں میں سےکسے ایوارڈ ملا؟ میں نے کوشش کی مگر سوائے سندھ سے تعلق رکھنے والی شاعرہ عزیزہ امبرین حبیب بخر کو پرائڈآف پرفارمنس ملا یا آزاد کشمیر سے جواد جعفری اس ایوارڈ سے نوازے گئے۔ایک بہت مستحق ادیبہ سلمیٰ اعوان کی خوش فہمی ہے کہ انہیں ستارہ امتیاز مل گیا۔ پنجاب سے فیض صاحب کی بیٹی منیزہ کو بھی ستارہ امتیاز ملامگر میں ان کی ادبی خدمات سے واقف نہیں۔یقیناً یہ میری جہالت ہے ان کی عمومی شہرت صرف اتنی ہے کہ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک ’’فیض فروشی‘‘ کرتی ہیں ؟چند ایک آرٹسٹ حامد رانا المعروف سونا، شیبا حسن المعروف چاندی اور گلوکارہ فریحہ پرویز ایوارڈ یافتگان میں سے ہیں۔سوائے فریحہ پرویز کے باقی خانہ پری ہے ورنہ ایک سے ایک بڑا اداکار، موسیقار، مصور اور خطاط ہمارے ہاں موجود ہیں مگر ہما جس کے سر پر بیٹھ گیا بس بیٹھ گیا۔
مجھے سب سے زیادہ دلچسپی اس امر میں تھی کہ ادب پر ایوارڈکسے ملا ہے اور پورے پاکستان میں سے صرف دو تین ہی انہیں ملے۔ میری خواہش ہے کہ ایوارڈ یافتگان کے ناموں کو چھوڑیں صرف اس کمیٹی کے ارکان کے نام شائع ہونا چاہئیں جو بھینگے ہیں اور ان کی بینائی پر انحصار کیاگیا۔بیرون ملک مقیم عمر فاروق کو عمران کی گھڑی خریدنے پر تو یہ عزت دے دی گئی مگر جو لوگ پردیس میں بیٹھے پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں اور پاکستان کے خوبصورت پہلو مختلف حوالوں سے سامنے لاتے رہتے ہیں، پاکستان کے ان سفیروں کو نظرانداز کیا گیا ۔مجھے ان میں سے ایک نام قمر ریاض کا یاد آ یا ہے مگر خواہ مخواہ یاد آ گیا اگر وہ پاکستانیوں کو متحد کرنے اور پاکستان کی تشخیص کروانے کے بکھیڑوں میں نہ پڑتے تو شاید ان کیلئے بہتر ہوتا۔بہرحال گزشتہ برس ایوارڈ ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے اب کےحقدار کو بھی محروم کر دیا گیا ۔اناللہ وانا الیہ راجعون
آخر میں ناصر بشیر کی ایک غزل:
میں اپنا درد بھلاتا ہوں، خوش نظر آکر
یہاں تو ہنستا ہوں، روتا ہوں اپنے گھر جاکر
تو پہلے جیسا نہیں ہے، بدل گیا میں بھی
میں خوش نہیں ہوں،تجھے اپنے سامنے پاکر
چھپا رہا ہوں میں جو کچھ، مجھے چھپانے دے
مرے شریک!مجھے غور سے نہ دیکھا کر
یہ قہقہے ترے کر دیں گے، مجھ سے دور تجھے
تو میرا ہے تو مرے ساتھ مل کے رویا کر
کبھی کبھی تو برستا ہے بادلوں کی طرح
یہ مہربانی مرے مہرباں! ہمیشہ کر
وہ میرے سامنے رہتا ہے، جو نہیں ہے کہیں
مری نگاہ سے دنیا کو تو بھی دیکھا کر
تمام شہر کا ہو کر بھی صرف تیرا ہوں
تو میرے بارے میں اتنا ضرور سوچا کر
چلے نہ جائیں، یہ احباب چھوڑ کر پھر سے
مرے طبیب!مجھے تو ابھی نہ اچھا کر
نہ بار بار بچھڑنے کی داستان سنا
جو زخم بھر گیا اس کو نہ پھر سے تازہ کر
تو سنگ زاد ہے، زیبا تجھے سکوت مگر
زبان کھول! مرے فن کا بول بالا کر
کہیں بدلنا ہی پڑتا ہے راستہ ناصر
مگر میں پھر بھی کہوں گا تو نہ ایسا کر