سرینگر:(مانیٹرنگ ڈیسک ) اگرچہ مودی کی بھارتی حکومت اپنے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ترقی اور صورتحال معمول پر آنے کے بلند و بانگ دعوئوں میں مصروف ہے تاہم مقبوضہ کشمیر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق کشمیری پی ایچ ڈی اسکالر جنید افضل بے روزگاری کی وجہ سے سرینگر میں خشک میوہ جات فروخت کرنے پر مجبور ہے ۔ جنید افضل کی طرف سے سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں انہوں نے خاص طورپر 5اگست 2019کو مودی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کے بعد اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کو شدید مشکلات اورمقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کو اجاگر کیا ہے۔ انہوںنے ویڈیو میں بتایا کہ ہر سال مقبوضہ کشمیر سے تقریبا 50نوجوان اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرتے ہیں جس سے کشمیری نوجوانوں کی ذہانت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ تاہم انہوںنے بتایاکہ ان میں سے صرف دو سے پانچ کشمیری اسکالر ہی انڈین پبلک سروس کمیشن کے ذریعے نوکریاں حاصل کر پاتے ہیں جبکہ باقی نوے فیصد کشمیری اسکالروں کوبے روزگاری کی وجہ سے ذہنی صدمے اور سماجی و اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ویڈیو میں جنید نے کہاکہ بہت سے کشمیری اسکالراپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے متبادل ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہیں ۔انہوںنے بتایاکہ بہت سے کشمیری اسکالر ان کی طرح محنت مزدوری کرتے ہیں ،جس سے مقبوضہ کشمیرمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کو درپیش شدید مشکلات کی عکاسی ہوتی ہے ۔ کشمیری سکالر کی اس ویڈیو سے مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019 کے بعد ترقی اور روزگار کے مواقع کی فراہمی کے مودی حکومت کے دعوئوں کی قلعی بھی کھل گئی ہے ۔