ناصر بھولو، 1960 میں لاہور، پاکستان میں پیدا ہوئے، اپنے خاندان کے عظیم پہلوانی ورثے کے آخری روشن چراغ تھے۔ ان کا تعلق مشہور گاما ریسلنگ فیملی سے تھا، جس نے کئی دہائیوں تک جنوبی ایشیا میں پہلوانی کی دنیا پر راج کیا۔ ناصر بھولو کے دادا، مشہور بھولو پہلوان، گاما پہلوان کے بھتیجے تھے، اور اسی وراثت کے سائے میں ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
ناصر بھولو کی ریسلنگ میں دلچسپی بچپن سے ہی ظاہر ہو گئی تھی۔ اپنے بزرگوں کی طرح، انہوں نے بھی اپنی ابتدائی تربیت اپنے خاندان کے اکھاڑے میں حاصل کی۔ ان کی تکنیکی مہارت اور جسمانی طاقت نے جلد ہی انہیں اپنے زمانے کے سب سے بہترین پہلوانوں میں شامل کر دیا۔ 1980 کی دہائی میں، ناصر بھولو نے پاکستانی ریسلنگ کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔
ناصر کا پہلا بڑا میچ متحدہ عرب امارات کے معروف پہلوان یاسر علی کے خلاف تھا، جس میں انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس فتح نے انہیں نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک نیا مقام دیا۔ 1982 میں، ناصر بھولو نے بنگلہ دیش کے ڈیوڈ اسٹالفورڈ کو ہرا کر ایشین چیمپئن کا خطاب جیتا، جو ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
ان کی فتوحات کا سلسلہ یہاں نہیں رکا۔ ناصر بھولو نے کئی مشہور پہلوانوں کو شکست دی، جن میں دی اساسین، 1968 کے اولمپک میڈلسٹ ہریکین مائیک ہینسی، اور ہندوستانی پہلوان کنول جیت سنگھ شامل تھے۔ ان کی ہر کامیابی نے انہیں مزید مقبول بنایا اور ان کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔
ناصر بھولو کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، جاپان کے مشہور پہلوان انتونیو انوکی نے انہیں جاپان میں تربیت کی دعوت دی، جو کہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ تاہم، ناصر نے اپنے خاندان کے بزرگوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ ان کے بزرگوں کا خیال تھا کہ ناصر کو اپنے وطن میں ہی پہلوانی کو فروغ دینا چاہیے۔
ناصر بھولو نے 1990 میں ریسلنگ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا، جس سے بھولو برادرز کے عظیم دور کا اختتام ہوا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے پیچھے سب سے بڑا سبب پاکستان میں تربیتی سہولیات کی کمی تھی، جس نے ان کے کیریئر کو قبل از وقت ختم کر دیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد، ناصر لاہور میں رہائش پذیر ہیں اور چند جموں کا انتظام کرتے ہیں، جہاں وہ نوجوان نسل کو تربیت دیتے ہیں۔ اگرچہ وہ اب براہ راست ریسلنگ سے وابستہ نہیں ہیں، لیکن ان کی موجودگی پاکستانی ریسلنگ کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔
ناصر بھولو کی زندگی کا ایک افسوسناک پہلو 1981 میں پیش آیا، جب ایک دوستانہ مقابلے کے دوران ان کی فلائنگ کک سے گوگا پہلوان کی حادثاتی موت واقع ہو گئی۔ اس واقعے نے ناصر کو گہرا صدمہ پہنچایا، لیکن انہوں نے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی ریسلنگ کی خدمت جاری رکھی۔
ناصر بھولو آج بھی پاکستانی ریسلنگ کے ہیرو کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اور کامیابیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ محنت اور عزم سے کوئی بھی خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔ ناصر بھولو کا نام ہمیشہ پاکستانی کھیلوں کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔