کراچی (رپورٹ : مرزا افتخار بیگ ) "پاکستان میں اب ٹیلنٹ سے زیادہ پیسے کی قدر ہے، پاکستان میڈیا انڈسٹری میں فیورٹزم کو ہمیشہ سے اولیت رہی ہے، آج کے زیادہ تر "فنکار” کم وقت میں "فن” سے زیادہ "کار” حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں”، یہ بات رائٹر، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر طلال فرحت نے ایک تقریب میں بات چیت میں کہی ان کے کہنے کے مطابق آج کل دیکھا جائے تو چند نئے فنکار صرف اپنی PR بنانے کے لیےحقداروں کو ان کے حق سے محروم کر کے مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے کوآرڈینیٹرز اور کردار بک کرنے والوں کو تحفے تحائف اور دیگر چھوٹی موٹی چیزیں کا لالچ دے کر اپنا کریکٹر فکس کرا لیتے ہیں اور دیگر سینئر ساتھی اداکاروں کی جگہ اپنے من پسند اداکاروں کو کاسٹ کروا لیتے ہیں، جس سے ان اداکاروں کا وقار مجروح ہوتا ہے جو کافی عرصے سے اسکرین پر کام کرتے چلے آئے ہیں، کئی لوگوں نے تو اس فیلڈ سے ہی کنارہ کشی اختیار کر لی ہے”، یہ بات کہتے ہوئے ان کا لہجہ نہایت سخت تھا انہوں نے مزید کہا کہ "ماضی میں اگر نظر دوڑائیں تو پاکستان ٹیلی ویژن کے سینیئر پروڈیوسر شہزاد خلیل (مرحوم)، شعیب منصور اور ج سید شاکر عزیر اپنے کام میں ماہر تھے، بدقسمتی سے آج کے دور میں ان جیسے ہیرے پروڈیوسرز کا شاید ہی نئے کام کرنے والے ہدایتکاروں کے کام میں دیکھنے کو ملے، لاکھوں غریبوں میں سے صرف دو یا تین غریب اپنا ٹیلنٹ دکھا کر دلوں پہ راج کرتے ہیں بشرطیکہ انہیں صحیح کندھا یا پلیٹ فارم مل جائے، پاکستان ٹیلی ویژن کے متعدد ایوارڈ یافتہ سینیئر پروڈیوسر علی رضوی (مرحوم) پر دستاویزی فلم بنائی جو کہ میری اپنی ذاتی محنت سے بنی اس میں کسی نے بھی اپنا حصہ نہیں ڈالا اور اس میں ساری فوٹیجز میری اپنی جمع کی ہوئے تھیں، کراچی کے آرٹس کونسل میں علی رضوی صاحب (مرحوم) کی "تقریب پذیرائی” کی تقریب میں اسکرین بھی کیا گیا تھا، الحمدللہ میں نے پاکستان کی تاریخ کی پہلی چھوٹے قد پر مبنی "اٹھننی” دستاویزی فلم کو ہندوستان کے دہلی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھیج کر ستائشی سرٹیفکیٹ حاصل کیا، اس کے بعد کسی نے پہ بھی اس پر قلم اٹھانے کی کوشش نہیں کی، میں آج کل اپنی لکھی ہوئی 20 منٹ کی شارٹ فلم پر کام کر رہا ہوں جو خواتین اور بچیوں کے حقوق پر ہے، جس پر پاکستانی میڈیا انڈسٹری نے ابھی تک قلم نہیں اٹھایا اور اسے ہم بین الاقوامی فلمی میلوں میں بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں
آج کی نئی نسل غلطی سے بھی میڈیا ک طرف نہ جائے، کیونکہ اب تو ہر ایک کے پاس موبائل ہے اور ہر کوئی ڈائریکٹر پروڈیسر لائٹ مین، ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی کے ساتھ اداکار بنا پھر رہا ہے، مزے کی بات یہ ہے ان میں سے کوئی بھی کام انہیں نہیں آتا، اس فیلڈ میں انے والے نئے اداکاروں کو اب چاہیے کہ وہ دوسرا ہنر سیکھ کر اپنے گھر والوں کی کفالت کریں اب اس میڈیا انڈسٹری میں زیادہ عرصے کام چلنے والا نہیں کیونکہ سب جگہ سوشل میڈیا نے اپنی جگہ بنا لی ہے”۔