کراچی (نمائندہ خصوصی آغاخالد)(صبح کاذب کی سحرانگیزی نے انگڑائی بھری تو وہ دونوں سٹ پٹاکر تیزی سے کمرے کی طرف چلے گئے)مگر ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہی خادم نے میرے دروازے پر پھر دستک دے کر بتایاکہ مہمان روانہ ہوا چاہتے ہیں میری آنکھ ہی لگی تھی مگر اطلاع ایسی تھی کہ میں اچھل کر غسل خانہ میں گھس گیا اور اگلے چند منٹ میں تیار ہوکر پروٹو کول کی گاڑیاں لگوا ہی رہا تھا کہ نواز شریف آگئے وہ کچھ جلدی میں تھے لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نواز شریف اکیلے ہی کمرے سے باہر آئے مینے ان کے قریب آنے پر سلام کیا تو وہ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر سرگوشی میں بولے۔۔۔۔۔۔وہ آرام کرہی ہیں جب بیدار ہوں تو انہیں کہنا اہم کال آگئی تھی اس لیے صاحب کو مجبورن جانا پڑا وہ بہت معذرت کرہے تھے میں طیارہ واپس بھیج دونگا انہیں صبح ناشتہ واشتہ کرواکر رخصت کرنا، وزیر اعلی کو رخصت کرکے میں دوبارہ اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گیا ابھی آنکھ ہی لگی تھی کہ خادم نے پھر دروازہ بجادیا اور بولا سر بیگم صاحبہ اٹھ گئی ہیں اور وہ بہت غصہ میں ہیں اور آپ کو بلارہی ہیں میں تھکن سے چور اور کچی نیند میں تھا مینے کہا یار تم لوگ انہیں ناشتہ کروائو میں آتا ہوں یہ کہ کر میں پھر سوگیا مادام نے ناشتہ سے تو انکار کردیا مگر کچھ دیر انتظار کے بعد وہ پھر کمرہ سے نکلیں اور غصہ سے دھاڑتے ہوے بولیں بلائو اس ۔۔۔۔۔۔ کو میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتی مجھے ابھی روانہ ہوناہے خادم نے ڈرتے ڈرتے پھر مجھے اٹھایا وہ بہت پریشاں لگ رہاتھا اور بتایا کہ مادام بہت غصہ میں ہیں پھر وہ ہاتھ جوڑ کر بولا، سر جی تسی چلو کتھے نواں رپھڑا نہ پے جئے (آپ چلیں کہیں نیا کٹا نہ کھل جائے) میری نیند سے بوجھل آنکھیں کھلنے کو تیار نہ تھیں میں پھر بھی اٹھ کر منہ پر پانی کا چھپکا مارکر مادام کے سامنے پیش ہوگیا ان کی حالت دیکھی تو نیند تو غائب ہو ہی گئی تشویش میں بھی مبتلا ہوگیا آج پہلی بار وہ کچھ مدہوش لگیں حسن تو ان کا قدرتی تھا ہی سو اس کا کچھ نہ بگڑا مگر وہ تیاری کے بغیر اور ادھورے کپڑوں کے ساتھ، مینے پہلی بار انہیں اس حالت میں دیکھا تو میں الجھ کر رہ گیا وہ میری بد حواسی کو بھانپتے ہوے انگریزی میں شٹ اپ کال دے کر نواز شریف پر برس پڑیں اور پھر اپنے جاہ و جلال کا رخ میری طرف موڑتے ہوے چیخ کر بولیں، جب وہ جارہے تھے تو مجھے کیوں نہیں جگایا، مجھے ان کے اس رویہ کی ہرگز توقع نہ تھی ایک سال سے ان کی آمد جامد تھی مگر ان کا اخلاق اور رویہ مثالی تھا جس کی وجہ سے ہمارا پورا عملہ ان کا گرویدہ تھا بہر صورت میری یہ اوقات تو نہ تھی کہ ان کا منہ سونگھ کر آج کے آگ برساتے ان کے موڈ کا اندازہ لگاتا مگر اتنا مجھے اس نوکری میں یہ تجربہ ہوگیا تھا کہ بڑے اور ان سے جڑے لوگ ہم جیسے چھوٹے طبقہ کے ملازمین کو انسان نہیں سمجھتے ان کے نزدیک ہماری اوقات مصنوعی کھلونے سے زیادہ نہیں ہوتی اس لیے وہ میرے سامنے قابل اعتراض حالت میں کھڑی غصہ سے دھاڑ رہی تھیں، رات کے طویل انتظار کے بعد صبح محبوب سے خالی بستر دیکھ کر ان کا آگ بگولا ہونا تو بنتا ہی تھا مینے بڑی عاجزی سے ان سے کہا، آپ تیار ہوکر ناشتہ کریں اتنے میں طیارہ وزیر اعلی کو چھوڑ کر آجائے گا پھر آپ چلی جائیے گا وہ بضد تھیں کہ وہ کار سے ہی لاہور جائیں گی جبکہ ان دنوں موٹروے بھی نہیں بنا تھا اور قومی شاہراہ کی حالت بھی کوئی زیادہ اچھی نہ تھی اس لیے مینے ان سے صاف کہ دیا کہ مادام میں یہ رسک نہیں لے سکتا آپ کو انتظار کرنا ہوگا وہ غصہ سے گھورتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں اور خادم کے پوچھنے پر ناشتہ سے بھی انکار کردیا، ظہیر بھائی کی آپ بیتی اتنی دلچسپ اور حیران کن تھی کہ ہمیں سفر کا پتہ ہی نہ چلا اور ہم راوالپنڈی پہنچ گئے جہاں ہم نے رکشے والے کی مدد سے ایک مناسب سا ہوٹل تلاش کیا اور اس میں کمرہ لیا سامان رکھا اور پہلے بھوک کا بندو بست کرنے ہوٹل کی دوسری منزل سے اتر کر سڑک پر آگئے جہاں لائن سے کھانے کے ہوٹل تھے اور سب ہی گاہکوں سے بھرے پڑے تھے پنڈی کی مشہور دیسی مرغ کی کڑاہی کھاکر واپس ہوٹل پہنچے اور چودھری شجاعت کے گھر پر لینڈ لائن فون پر رابطہ کیا جہاں سے ان کے سیکریٹری یا آپریٹر نے چودھری صاحب سے پوچھ کر ہمیں اگلے روز صبح 10 بجے کا وقت دیدیا یوں ہمارے پاس کافی ٹائم تھا کیونکہ ابھی شب کے 8 بجے تھے پوری رات پڑی تھی مگر ایک طرف سفر کی تھکاوٹ تو دوسری طرف ظہیر بھائی کی سردو گرم نامکمل آپ بیتی کے سحر نے جکڑ رکھا تھا، اور آگے ان کا کیس لڑنے کے لیے ضروری تھاکہ بھائی کی برطرفی کے پس منظر سے مکمل آگہی ہو جس پر مینے بستر پر دراز ہوتے ہوے ان کی یادوں کے تار چھیڑتے ہوے کہا، ہاں تو ظہیر بھائی آپ بتارہے تھے کہ خوش گلو نازنین غصہ سے کمرے میں چلی گئیں اور ناشتہ سے بھی انکار کردیا، ظہیر بھائی تکھاوٹ اور نیند سے بوجھل آنکھیں ملتے ہوے اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنی یاد داشتوں کو جمع کرتے ہوے کہانی کی ٹوٹی ڈور جوڑتے ہوےگویاہوے، کچھ دیر بعد ایرپورٹ سے طیارہ کی آمد کی کال موصول ہوگئی تو ہم نے انہیں بصد احترام رخصت کردیا وہ بھی اس وقت تک پوری طرح تیار ہوچکی تھیں، دوسرے روز صبح میں آفس پہنچا ہی تھا کہ مجھے معطلی کے احکامات موصول ہوگئے میں بہاول پور جاکر ڈی جی سے ملا اور ان سے اس روز کا ماجرا سناکر ان سے معطلی کی وجہ پوچھی تو وہ ہنس کر بولے یار یہ نوکری کاحصہ ہوتاہے تم ایک اچھے اور فرض شناس افسر ہو پریشاں نہ ہو خاتون نے چیف صاحب کو الٹی سیدھی لگائی ہوگی اس لیے انہوں نے بھی اسے خوش کرنے کے لیے معطلی کا کہدیا ان کی مصروفیات میں کل انہیں یاد بھی نہیں رہے گا اس لیے ہفتہ دس دن بعد تمہیں بحال کردیں گے پھر وہ کچھ سوچتے ہوے بولے ابھی تم ایسا کرو ایک ہفتہ کی چھٹی کے ساتھ پچھلی تاریخوں میں ایک تنخواہ انعام میں تمہیں دیتاہوں تم بچوں کو مری شری گھما آئو واپس آئوگے تو تمہیں بحال کردیں گے، میرے استفسار پر کہ تم 17 گریڈ کے اور ڈی جی 20 گریڈ کا اور وہ بھی نواز شریف سے براہ راست تعلق دار پھر وہ تم پر اتنا میہرباں کیوں تھا، تو ظہیر بولے یار ہیں تو وہ بھی انسان ہی اور اللے تللے ان کے بھی نواز شریف والے ہی تھے وہ کونسا مسجد کے پیش امام تھے بلکہ وہ تو اکثر دیگر دل بستگیوں کے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آکر بھی ٹھرا کرتے تھے اور بچوں سے ریگستان میں ہرن اور چرند پرند کا شکار بھی کرواتے تھے جبکہ یہ شکار غیر قانونی ہوتا تھا یوں بھی ڈی جی اپنی بیگم سے بہت ڈرتے تھے اس لیے جب بھی آتے مجھے بلاکر خاص طور پر ہدایت دیتے کہ اپنے عملے کو سختی سے کہ دیں کہ وہ بیگم صاحبہ سے زیادہ بے تکلف نہ ہوں نہ ہی انہیں میری یہاں کی آمد جامد کا پتہ چلنے دیں، پھر یہ بھی تھا کہ میری کبھی بھی کسی مہمان نے شکایت نہ کی تھی اس میں ان کی بھی عزت تھی کہ ایسی حساس جگہ آپ نے ایک ذمہ دار افسر کی تقرری کی ہوئی ہے تو ان کا میہرباں ہونا تو بنتا ہی تھا میں ایک ہفتہ بعد مری سے واپس آیا تو دفتر کے حالات ہی بدلے ہوے تھے کوئی افسر مجھ سے سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہ تھا اور ہر کوئی پہلو بچاکر نکلنے کی کوشش کرتا مجھے بہت حیرت ہوئی اسی دوران مجھے پیغام ملا کہ میں ایڈ من برانچ میں رابطہ کروں میں وہاں گیا تو ایڈ من افسر جوکہ میرا پرانا اور بے تکلف دوست تھا نے مجھے شوکاز پکڑادیا اور بے رخی سے میرے سامنے دو سفید کاغذ اور قلم رکھ کر بولا اس پر اپنا تفصیلی موقف لکھ دو مینے شوکاز پڑھا تو پتہ چلا وزیر اعلی کے حکم پر انکوائری بورڈ میرے خلاف بٹھایا گیا ہے جو ایک ہفتہ سے مجھ سے رابطہ کی کوشش کرہاہے مگر میں بغیر اطلاع یا چھٹی کے غائب ہوں مینے شوکاز پڑھ کر اپنے دوست افسر سے کہاکہ یار یہ تو سراسر زیادتی ہے میں تو ایک ہفتہ کی باقاعدہ چھٹی لے کر گیا تھا اور ڈی جی صاحب نے ایک ماہ کی تنخواہ بھی مجھے بطور انعام دلوائی تھی وہ روکھے لہجہ میں آنکھیں چراتے ہوے بولا تو اس میں لکھ دیں نہ سب کچھ جو آپ کو یاد ہے اور اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلاگیا مینے شوکاز پکڑا اور ڈی جی سے ملنے پہنچ گیا پہلے تو چپڑاسی مجھے روکتے ہوئے بولا صاحب آپ پی اے سے مل لیں جبکہ اس سے پہلے کبھی مجھے روکا نہیں گیاتھا میں ان کے پاس گیا تو وہ بھی بے رخی سے بولا ڈی جی میٹنگ میں ہیں اور آج کاشڈیول بہت ٹائٹ ہے ملاقات نہیں ہوسکتی میرے بار بار اصرار پر وہ دھیرے سے بولا،او نئیں ملنا چاندے (وہ نہیں ملنا چاہتے) اب مجھے معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوا ورنہ میں تو اس خیال میں مگن تھا کہ ڈی جی معاملات کو سنبھال لیں گے وہ میرے میہرباں افسر ہیں جس کھونٹے پر ناز تھا وہ کھونٹہ ہی دغاباز نکلا اب میں مضمحل سا واپس ایڈ من میں پہنچا جہاں ایڈمن افسر سمیت بہت سی طنزیہ نظریں میرا تمسخر اڑارہی تھیں مینے سب کو نظر انداز کرتے ہوے اپنا تفصیلی جواب تحریر کیا کیونکہ مینے ایل ایل بی کیا ہواتھا چہ جائکہ میری پریکٹس نہ تھی مگر مجھے سرکاری ملازمت کے قواعد اور حقوق اچھی طرح ازبر تھے اس لیے میرا جواب خاصہ مدلل تھا جس کے بعد قانونی طور پر مزید کاروائی ممکن نہ تھی مگر یہاں تو معاملہ ہی مزاج یار کاتھا سو قانون نے آنکھیں بند کرلیں اور مجھے ملازمت سے برخواست کردیا گیا، وہ ہوٹل کے بیڈ پر دراز ہوتے ہوے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر سونے کی ناکام کوشش کرتے ہوے بولے، آگے کی کہانی تو تمہیں معلوم ہی ہے، میں بھی لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا مگر ان کی پر تاثیر کہانی کے آخری موڑ نے مجھے الجھا کر رکھ دیاتھا اور میں حیران ہورہا تھا کہ میرے پسندیدہ لیڈر کا انسانی کمزوریوں سے قطع نظر یہ روپ۔۔ ایک چھوٹے سے ملازم کی نوکری ہی ختم کردی اور اس کے نتائج اس ملازم کا خاندان کیسے بھگت رہاہے یہ ان بڑے لوگوں کو کیا معلوم، رات میں میری جب بھی آنکھ کھلی تو ظہیر بھائی کو کبھی نماز کبھی لمبی تسبیح اور کبھی طویل دعاء میں مصروف پایا ٹھیک 8 بجے انہوں مجھے بھی جگادیا اور اس طرح ہم ناشتہ سے فارغ ہوکر چودھری شجاعت کے در دولت پر حاضر ہوگئے ان کے لمبے سے ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں چودھری صاحب دو مہمانوں سے محو گفتگو تھے ہم داخل ہوے تو چودھری صاحب نے اپنے ملازم کو ہاتھ کے اشارہ سے ہمیں دروازے کے ساتھ ہی پڑے صوفوں پر بیٹھانے کو کہا تو ہم وہیں بیٹھ گئے اسلام آباد جیسے خود پسندی کے ماحول میں بھی چودھری شجاعت کی مہمانداری دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ بغیر بولے بغیر پوچھے ہمارے لیے پر تکلف ناشتہ بمع چائے کے لایا گیا تو ہم نے معذرت کرتے ہوے صرف چائے پر اکتفا کیا چودھری صاحب جو مہمانوں کی گفتگو سے بوریت ظاہر کرتے ہوے بار بار ہماری جانب متوجہ ہورہے تھے نے ہمیں مخاطب کرکے پنجابی میں بولے، صحافی صاحب بڑی دوروں آئے یو ناشتہ تے کرونا تھواڈے واسطے منڈا لے کے آیا وے ہم نے شکریہ کے ساتھ بتایا کہ ہم رات سے ہوٹل میں ٹھرے ہوے ہیں اور ناشتہ کرکے آئے ہیں، تو چودھری صاحب نے کہا، اچھا ناشتہ نہیں کرناتو پھر ادھر ہی آجائو، ہم ان سے معانقہ کرکے ان کے قریب ہی بیٹھ گئے ان کا ملازم چائے کے دوکپ ٹرے میں رکھ کر ہمارے سامنے رکھ گیا چودھری صاحب نے مجھے مخاطب کرکے اپنے دونوں مہمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ان کو جانتے ہو، مینے نفی میں سر ہلایا تو بولے، یہ اسلام آباد کے وڈے صحافی ہیں پھر میرا ان سے تعارف کروایا تو وہ دونوں چونک گئے پھر ان کا تفصیلی تعارف ہوا تو چونکنے کی وجہ سمجھ آگئی، پتہ چلا ایک نوائے وقت اور دوسرے کا تعلق روزنامہ مشرق سے ہے اور وہ مشرق یونین کے بھی بڑے لیڈر ہیں وہ دونوں کافی دیر سے چودھری صاحب سے مالی مطالبات کرہے تھے چودھری صاحب نے اپنی چیک بک منگواکر انہیں چیک کاٹ دیے مگر وہ مزید رقم پر بضد تھے جبکہ چودھری صاحب پھیکی سی مسکراہٹ سے انہیں ٹال رہے تھے ہمارے تعارف سے چودھری صاحب کی گلو خلاصی ہوئی اور وہ دونوں عجلت میں رخصت ہوگئے، چودھری صاحب کو مینے مختصر ظہیر بھائی کے ساتھ پیش آئے معاملہ سے آگاہ کیا اور ان کی بحالی کی درخواست کی اس گفتگو کے دوران مغنیہ کے ذکر پر چودھری صاحب کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی جس سے اندازہ ہواکہ وہ پہلے سے اس عشقیہ سلسلہ سے آگاہ ہیں اور انہوں نے اسی حوالے سے ظہیر بھائی سے کئی سوال بھی کیے اس دوران کوئی اور صاحب جن کا شاید چودھری صاحب کے خاندان یا پارٹی سے گہرا تعلق تھا بھی گفتگو میں شامل ہوگئے چودھری صاحب نے ان سے بھی میرا تعارف کرواتے ہوے کہا کہ یہ بہت دور سے آئے ہیں ان کا مسلہ حل ہونا چاہیے اور ان صاحب سے مشورہ مانگا کہ کس سے بات کی جائے ان کے مشورہ پر چودھری شجاعت نے شہباز شریف کو فون کیا مگر ان سے بات نہ ہوسکی تو انہوں نے اس وقت پنجاب کے وزیر اعلی ہائوس کے انچارج اقبال ڈار کو فون کیا اور کہاکہ میں انہیں لاہور بھیج رہاہوں تم انہیں میرے حوالے سے شہباز شریف سے ملوادینا، ڈار میرے پرانے اور سینیر دوست ہیں وہ میرا نام سن کر حیراں ہوے اور چودھری صاحب سے مجھ سے پرانے تعلق بارے بتایا تو چودھری صاحب جو ویسے ہی بہت ہمدردی کرہے تھے نے اطمنان کا سانس لیا اور ہمیں اپنا کارڈ شہباز شریف کے نام لکھ کر دیا ہم اسی روز شام 6 بجے تک لاہور پہنچ گئے وہاں ہوٹل میں کمرہ لیا جیسے تیسے رات گزاری اور صبح اقبال ڈار کو فون کیا وہ مسلم لیگ ہائوس میں بیٹھا تھا ہمیں وہیں بلالیا ڈار نے ظہیر بھائی کی بپتا سنی تو پریشان ہوگیا اور بولا یار آغا آپ کا کام بہت مشکل ہے میں نواز شریف اور شہباز شریف کو بہت سے پارٹی لیڈروں سے زیادہ جانتا ہوں آپ اگر کہتے ہیں تو میں کوشش کرکے شہباز صاحب سے ملوا دیتا ہوں مگر امید کم ہے، ڈار مجھ سے اتنی ہمدردی اس لیے کرہے تھے کہ وہ تھے تو گجرانوالہ کے پنجابی مگر ان کے والد صاحب سندھ کے محکمہ آب پاشی میں ملازم تھے وہ ریٹائر ہوکر واپس گجرا نوالہ چلے گئے مگر اقبال ڈار سکھر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ اس دوران مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی رہنما بن چکے تھے ان کا ملک بھر کی طلبہ سیاست میں ڈنکا بج رہاتھا اس لیے وہ والد کے ساتھ واپس جانے کی بجائے سکھر کے ہوکر رہ گئے یوں بھی طلبہ سیاست کا مزا ہیروین کے نشہ سے زیادہ خطرناک ہوتاہے جبکہ میں بھی طلبہ سیاست میں جمعیت طلبہ سے وابستہ تھا اور سکھر ڈویزن کا صدر بھی، مگر ہم ڈار کے مقابلہ میں پدی تھے وہ ملکی سطح کا معروف طالب علم رہنما تھا اور عمر میں بھی ہم سے کافی بڑا تھا کمال یہ ہے کہ آج بھی وہ عمر چور ڈار ہم سے چھوٹاہی لگتاہے، ادھر اس دور میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا عروج تھا تمام مذہبی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی اور مسلم لیگ دائیں دھڑے کی جماعتیں کہلاتی تھیں جبکہ پپلز پارٹی اور اے این پی وغیرہ بائیں بازو کی جماعتیں سمجھی جاتی تھیں، ڈار سے یہ تعلق میرے صحافت میں آنے کے بعد بھی قائم رہا اور اسی حوالے سے وہ ہمارے کام کے لیے فکر مند تھا مگر آگے سے اسے کسی نتیجہ کی امید نہ تھی پھر طے یہ ہواکہ اقبال ڈار رابطہ کرکے شہباز شریف کو چودھری شجاعت کا پیغام دیں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ ہم سے ملنے کے لیے تیار ہوجائیں بصورت دیگر وہ کم از کم ظہیر بھائی کی بحالی کے احکامات جاری کریں مگر 2 روز بعد ڈار بھی مایوس ہوگئے اور شرمندگی کے سبب ملنے کی بجائے فون پر ہی معذرت کرلی ان کی مختصر کال اور روکھی گفتگو میں کافی پیغام پوشیدہ تھا جسے لے کر ہم واپس بہاوالپور روانہ ہوگئے راستے بھر ہم میں کوئی بات نہ ہوئی ہم دونوں بھائی آپس میں نظریں چار کرنے سے بھی کترارہے تھے ظہیر بھائی سنجیدہ مزاج کے امید کو ہی منزل بناکرخوش رہنے والے سادہ دل لوگوں میں سے تھے جن کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں اور وہ ہربات میں مسرت کا کوئی پہلو ڈھونڈ لاتے ہیں مگر جونہی گھر میں داخل ہوے تو گھر کے مالی بحران میں گھرے ماحول نے ظہیر بھائی کو بھی اداس کردیا ان کے 2 بچوں کو فیس کی عدم ادائگی پر اسکول سے نوٹس مل چکا تھا چند گھنٹوں میں کریانہ والا، دودھ والا،دھوبی نے دروازہ پر دستک دی اور گھر کے راشن وغیرہ کے معاملات نے مجھے بھی ایسا جھن جوڑا کہ بے بسی سے اپنا بیگ اٹھاکر ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا میرا دل پھٹا جارہا تھا اور رہ رہ کر نواز لیگ اور ان کی حکومت پر غصہ آرہاتھا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے بھابی رافعہ کے بھائی مجھے ڈھونڈتے اسٹیشن پہنچ گئے مگر پہلی بار ان کے شدید اصرار کو بھی رد کرکے میں ٹرین میں سوار ہوکر سکھر پہنچ گیا کچھ روز بعد اطلاع ملی کہ ظہیر بھائی نے عدالت میں کیس دائر کردیاہے اور نواز شریف سمیت تمام اعلی حکام کو فریق بنایا گیاہے جبکہ ظہیر بھائی کی برطرفی کی اصل وجوہ اپیل کے متن میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اس پر حکومت میں کھل بلی مچ گئی اور دو چار پیشیوں کے بعد ہی بدنامی یا کسی اسکینڈل سے بچنے کی خاطر نواز حکومت نے ظہیر بھائی کو بحال کردیا انہوں نے پھر ڈٹ کر نوکری کی اور معمول کے طریقہ کار سے ریٹائر ہوے بعد ازاں بھرپور زندگی گزار کر 10 اگست 2021 کو دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ اس درد ناک آپ بیتی کا حاصل یہ ہے کہ، صاحبان اقتدار اور دولت مندوں سے بس اس قدر عرض ہے کہ جب بھی عشق کرو تو خدارا اتنا خیال رکھو کہ کوئی کمزور تمھاری محبت کے بوجھ تلے دب نہ جائے؟
(ختم شد)