راولپنڈی (نمائندہ خصوصی )پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل ، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ افواج پاکستان حق خود ارادیت کی منصفانہ جد وجہد میں مقبوضہ کشمیر کے بہادر عوام کے ساتھ کھڑی ہے ، مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی یہ سب بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، پاک فوج عوام کے لیے سما جی معاشی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے دن افواج پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ان شہدا کو ان کی عظیم قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ظلم اور غیر قانونی تسلط کے خلاف کشمیریوں کی منصفانہ جد وجہد میں کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حکومت پاکستان ان کے مؤقف کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سال 2024 کے پہلے 7 ماہ میں کاؤنٹر ٹیررزم کے ان آپریشنز کے دوران 139 بہادر افسران اور جوانوں نے جام شہات نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کےلواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیز پاکستان کی داخلی اور بارڈر سیکیورٹی کو یقینی اور دائمی بنانے کے لیے مکمل طور پرتوجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور اس سے جڑی دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی، کاؤنٹر ٹیررزم اور فوجی آپریشنز کے علاوہ جیسا کے پہلے کہا کہ افواج پاکستان بالخصوص پاکستان آرمی عوام کے لیے سماجی معاشی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، ان میں بہت سے فلاحی کام ہیں، جیسا کہ تعلیم، صحت، فلاح و بہبود، معاشی خود انحصاری اور دیگر شعبہ جات کے منصوبوں، جو فوج، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے مکمل کرتی ہے۔افواج پاکستان کی خصوصی توجہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں پر ہے، اس کے علاوہ فلاحی منصوبے آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہیں یا پایہ تکمیل تک پہنچائے جا چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تعلیم کے شعبے کی بات کرتے ہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اس حقیقت کے پیش نظر افواج پاکستان کی جانب سے پاکستان کے طول و عرض بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں تعلیمی وسائل کی فراہمی کے لیے جامع اقدامات کیے گئے اور اس ضمن میں مختلف تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، خیبرپختونخوا اور خاص طور پر نئے ضم شدہ اضلاع میں 94 اسکول ،12 کیڈٹ کالجز، 10 ٹیکینکل اور ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان تعلیمی اداروں سے تقریباً 80 ہزار بچے تعلیم کی روشنی سے مستفید ہو رہے ہیں، 2 منصوبے جن کا میں خصوصی طور پر ذکر کروں گا، پہلا منصوبہ چیف آف آرمی اسٹاف کی یوتھ ایمپلائمنٹ اسکیم ہے، جس کے تحت ان اضلاع میں 1500 مقامی بچوں بشمول ملٹری کالجز میں مفت تعلیم دی جاری ہے، دوسرا منصوبہ تعلیم سب کے لیے، اس منصوبے کے تحت خیبرپختونخوا 7 لاکھ 46 ہزار 768 طالب علموں کو انرول کیا گیا ہے، جن میں 94 ہزار سے زائد کا تعلق نئے ضم شدہ سے ہے، اس منصوبے کے تحت تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو معاشرے کا کامیاب شہری بنانے کے لیے ڈیجیٹل اور ٹیکینکل اسکلز بھی سکھائی جا رہی ہیں۔اسی طرح بلوچستان کے حوالے سے بات کی جائے تو 60 ہزار طالب علموں کو 160 اسکول اور کالجز، 12 کیڈٹ کالجز، یونیورسٹیز اور 3 ٹیکینکل انسٹی ٹیوشن کا قیام وفاقی اور صوبائی کے تعاون سے عمل میں لایا گیا ہے، بلوچستان کے ان طلبہ کے لیے ایک جامع اسکالرشپ کا شروع کیا گیا ہے، جس میں ان کو پاکستان آرمی کی جانب سے تعلیم کے ساتھ تمام سہولیات اور اخراجات بھی فراہم کیے جار رہے ہیں، اب تک اس پروگرام کے تحت 8 ہزار سے زائد بلوچستان کے طلبہ مستفید ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بلوچستان میں ایف سی اور پاک فوج کی جانب سے مختلف علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے 92 اسکول چلائے جا رہے ہیں جن میں 19 ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں، یہ بھی بتاتا چلوں کہ افواج پاکستان کے تعاون سے بلوچستان کے 253 طالب علموں کو متحدہ عرب امارات کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم بھی دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی افواج پاکستان کی جانب سے 171 اسکول اور 2 کیڈٹ کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس میں علاقے کے 50 ہزار سے زائد طالب علم مستفید ہو رہے ہیں، اسی طرح سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں بھی ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور 100 سے زائد سرکاری اسکولوں کی اپ گریڈیشن بھی کی گئی ہے۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا کہ صحت کے شعبے میں دیکھا جائے تو پاک فوج نے پاکستان کے طول و عرض میں صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں، پاکستان کے مختلف اضلاع میں پاکستان آرمی کی جانب سے میڈیکل کیمپس میں ایک لاکھ 15 ہزار مریضوں کا مفت علاج کیا گیا، میڈیکل کیمپس کا فوکس خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہے، جہاں سیکڑوں اور ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔اسی طرح صوبہ بلوچستان میں 2024 میں 87 میڈیکل کیمپس لگائے گئے، ملک بھر میں پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان کی جانب سے حکومت پاکستان کی پولیو مہم میں محفوظ ماحول کو یقینی بنانے کے لیے 66 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار پولیو ٹیموں کے ساتھ پورے پاکستان میں تعینات کیے گئے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ انفرااسٹرکچر کے ضمن میں پاک فوج نے بہت اہم اقدامات کیے ہیں، خیبرپختونخوا میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے 3293 منصوبے مکمل کیے گئے، جن میں میر علی ہسپتال، لیکسن مارکیٹ ڈگری کالج میرانشاہ، گرلز ہائی اسکول وانا، روڈ وانا بائی پاس کی تعمیر اہم ہیں، اس کے علاوہ مقامی افراد کے لیے ایگریکلچر پارک وانا اور جنڈولہ مارکیٹ کے علاوہ کچھ اہم پروجیکٹس جو افوج پاکستان اور اس کے فلاحی ادارے چلا رہے ہیں، شیوا گیس فیلڈ اسپن وام ، ایک 150 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بھی جو شیوا گیس فیلڈ کو مین گیس اسٹیشن سے ملائے گی۔انہوں نے کہا کہ محمد خیل کاپر مائن پروجیکٹ، زرملان میں ایک ہزار ایک ایکٹر زمین کو قابل کاشت کیا جا چکا ہے، اس کے علاوہ بہت سے منصوبوں پر مقامی اور غیر مقامی کمپنیاں ان نئے ضم شدہ اضلاع میں کام کررہی ہیں، ان پروجیکٹس سے نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار میسر ہو رہا ہے بلکہ اس کا ایک بہت اچھا حصہ عوامی فلاح و بہبود پر بھی خرچ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی کی بات کی جائے تو تعلیم، صحت اور صاف پانی کی فراہمی افواج پاکستان کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں 912 منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جاچکا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ بلوچستان میں پاک فوج کے تعاون سے سڑکوں اور پلوں کے حوالے سے اہم منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں، آرمی چیف کی طرف سے گوادر کے عوام کے لیے تعلیم، صحت، پانی اور روزگار کی فراہمی کے لیے 104 مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے اور کچھ پر کام مکمل ہو چکا ہے، گوادر میں صاف پینے کے پانی کے لیے واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ اور اس کے ساتھ ساتھ پاک چائنا فرینڈشپ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجگور میں متحدہ عرب امارات کے تعاون سے ڈیٹس پروسیسنگ پلانٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، اس منصوبے سے مقامی لوگوں کو روزگار کی سہولت میسر آ رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہاں میں خصوصی طور پر چمن ماسٹر پلان کا ذکر بھی کروں گا، جس کے تحت 94 ایکڑ زمین پر مختلف تعمیراتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن کا مقصد چمن کے عوام کو متبادل روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان گرین انیشیٹو کے حوالے سے فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے حکومت پاکستان کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت 8 لاکھ بنجر زمین کو زیر کاشت لایا جا رہا ہے، اس میں سے ایک لاکھ ایکٹر پر کاشت شروع بھی کی جا چکی ہے، اسے رواں سال دسمبر تک ڈھائی لاکھ ایکٹر تک بڑھا دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ پانی کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سسٹم کو درآمد کیا جا رہا ہے اور مزید سسٹم ہیوی انڈسٹریز ٹیکسا میں تیار کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ لائیو اسٹاک کی ترقی کے لیے ملک کے 24 اضلاع میں پروگرام شروع کیا گیا ہے، 16 ایگری کلچر ریسرچ سینٹرز بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں، ان منصوبوں سے نہ صرف روزگار مل رہا ہے بلکہ یہ فوڈ سیکیورٹی اور زر مبادلہ کی جانب اہم قدم بھی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر ملک کی نوجوان نسل کی فلاح و بہبود یقینی بنانے اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی حب کا قیام اہم منصوبہ ہے، اس سلسلے میں ڈی ایچ اے کوئٹہ، پشاور ملتان اور اسلام آباد میں 3 ہزار سے زائد نوجوانوں کو ان آئی حب میں رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے، ملک کے دیگر علاقوں میں بھی یہ منصوبے جلد شروع کیے جا رہے ہیں۔افواج پاکستان قومی اہمیت کے مختلف منصوبوں پر جن کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے، انہیں سیکیورٹی بھی فراہم کر رہی ہے، افواج پاکستان اور سول آرمز فورسز کے ہزاروں اہلکار پورے ملک میں اہم منصوبوں کی سکیورٹی پر تعینات ہیں، اس کے علاوہ سی پیک کے منصوبوں پر بھی اہلکار تعینات ہیں۔انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان ٹیکس کی مد میں بھی 23 ارب روپے جمع کرا رہی ہے، 2022، 23 میں بھی ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں تقریبا ایک سو ارب روپے جمع کرائے۔ جب کہ پاکستان فوج کے رفاعی اور ذیلی اداروں نے مجموعی طور پر تقریبا 260 ارب روپے ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں قومی خزانے جمع کرائے، اس طرح سے پاک فوج اور اس کے زیر انتظام اداروں نے 2022، 23 میں مجموعی طور پر 360 ارب روپے قومی خزانے میں ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں جمع کرائے۔اس کے علاوہ لاکھوں خاندان ان اداروں کی وجہ سے ملازمت اور روزگار حاصل کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے، افسران اور جونوانوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، شہدا ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں، اس سلسلے میں شہدا کے خاندانوں، آپریشنز میں زخمی ہونے والے غازیوں کے لیے جامع پیکجز مختص ہیں، اس وقت افواج پاکستان 2 لاکھ 40 ہزار افراد کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاک فوج قومی فوج ہے، اس کے جوان و افسران ملک کے ہر حصے، مذہب و مسلک سے آتے ہیں، یہ ملک کے متوسط اور غریب خاندانوں سے آتے ہیں، پاک فوج کے افسر اور جوان ملک کے اشرافیہ نہیں ہیں، پاک فوج متوسط اور طبقوں کا گلدستہ ہے، یہ میرٹ کی بنیاد پر بنے سسٹم کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے ہر افسر و جوان کی ترجیح پاکستان ہے، اسی لیے وہ اپنی سب سے قیمتی چیز، اپنی ہر وقت ملک پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے؟انہوں نے کہا کہ یہ جانیں دینے کا تسلسل 1947 سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہےگا، اس کا تمام تر سہرا پاکستان کی بہادر ماؤں کو جاتا ہے، یہ آپ کی فوج کسی خاص ایک سیاسی سوچ، ایک زاویے، ایک گروپ، ایک پارٹی، ایک مذہب اور ایک مسلک کو لے کر نہیں چل رہی، یہ پاکستان اور اس کی ترقی کو لے کر چل رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ نگاہ ڈالیں تو پوری دنیا میں بیشتر ممالک میں ان کی افواج جو معاشی اور معاشرتی پراجیکٹس ہوتے ہیں ان میں اپنی حکومت اور اپنی عوام کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے اس کام کو قدر اور ستائش سے دیکھا جاتا ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ، اپنے مذموم تنگ نظر مفادات کے لئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ اس لئے ہوتا ہے یہاں پر ایک مافیا ہے ۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہاں پر مافیا ہے، وہ نہیں چاہتا پاکستان کی عوام ترقی کرے اور اس کی فلاح و بہبود ہو۔ ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ مافیایہ سوال نہیں کرے گا ان چیزوں کی وجہ کیا ہے، کیا مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہ عوام کی فلاح و بہبود نہیں ہورہی اور کس طریقے سے ہم مسائل کو حل کرسکتے ہیں، اس کو تکلیف اس بات پر ہے کہ فوج کیوں عوام کی ترقی و فلاح و بہبود کے لئے آگے بڑھ کر کام کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے ،یہ مافیا سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی عوام کو مجبور اور غریب رکھنے میں ہے تاکہ اس کا استحصال کرسکے ۔میں پہلے بھی اس فورم پر کہہ چکا ہوں اور میں آج دوبارہ یہی بات کروں گا جب آپ کے گھر میں اگ لگی ہو تو سوال یہ نہیں کرتے کے تم اگ بجھانے کیوں آئے ہو۔ ضروری یہ بات ہے کہ سوال کرنے والے کو اور اس اگ کو لگانے والے کو پہنچانیں۔انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی تباہی میں اس کی کامیابی ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اسے پہنچانیں ، اس مافیا کو پہچانیے اور اس کو یک زبان ہو کر ایک جواب دیں کہ تم جو کچھ کرلو ، جو ہم کر رہے ہیں، کوئی چیز بھی ہمیں وہ کرنے سے روک نہیں سکتی، نہ روکے گی۔تیل کی سمگلنگ کے حوالے سے کہا کہ اس مسئلے کا یہ حل نہیں بارڈر سیل کردیں۔یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس پر کام بھی ہورہا ہے کہ بتدریج وہاں پر متبادل روزگار اور سہولیات فراہم کی جائیں ۔ بجلی کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور ایف سی غیر قانونی طور پر سامان کی تجارت کو ختم کرنے کےلئے مستقل کوشش کررہی ہے اور اس حوالے سے نمایاں کمی بھی آئی ہے ۔ یہ فوج ، ایف سی ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سب کی مشترکہ کوششوں سے ہی ہوا ہے تاہم اس کا مستقل اور طویل مدتی حل ضروری ہے