گوادر کوئٹہ (محمد کاظم ۔بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی خصوصی رپورٹ )حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کے باوجود تاحال بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور دیگر شہروں میں دھرنے جاری ہیں۔ گذشتہ روز مذاکرات بلوچستان کے سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں کے درمیان ہوئے تھے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کا کہنا ہے کہ اگرچہ گذشتہ روز حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے لیکن تاحال مختلف مقامات پر ان کے پر امن دھرنے جاری ہیں۔گوادر شہر میں اگرچہ موبائل فون سروس تاحال بند ہے لیکن پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن کی سروس اور اس پر انٹرنیٹ کو بعض علاقوں میں بحال کردیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے راستوں کی بندش جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کی وجہ سے گوادر میں معمولات زندگی بری طرح سے متائثر ہو گئی تھیں۔تاہم مقامی صحافیوں کے مطابق گذشتہ روز سے گوادر شہر میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں۔محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ روز نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین کی توسط سے حکومت بلوچستان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔حکومت بلوچستان کی جانب سے مذاکرات کی قیادت بلوچستان کے سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی نے کی تھی۔موبائل فون سروس بند ہونے کی وجہ سے اگرچہ میرظہور بلیدی اور گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم بعض سرکاری حکام کے مطابق گرفتار افراد کی رہائی اور ایف آئی آرز کے اندراج کے حوالے سے بعض نکات ابھی تک طے ہونے باقی ہیں۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اہم مطالبات میں بلوچ قومی اجتماع کی مناسبت سے تمام گرفتار افراد کی رہائی، تمام راستوں کا کھولنا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کی ہلاکت اور زخمی کارکنوں کی ایف آئی آر گولی چلانے والے فورسز کے اہلکاروں کے خلاف درج کرنا شامل ہیں۔مذاکرات کے اس دوسرے دور کے باوجود تاحال بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنوں کو ختم نہیں کیا بلکہ یہ بلوچستان میں پانچ مقامات پر جاری ہیں۔بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ اس وقت گوادر اور کوئٹہ کے علاوہ جن علاقوں میں دھرنے جاری ہیں ان میں تربت، نوشکی اور حب چوکی شامل ہیں ۔بیبرگ بلوچ نے بتایا اگرچہ مذاکرات ہورہے ہیں لیکن بعض نکات نے ابھی طے ہونا ہے اس لیے تا حال یکجہتی کمیٹی کی مرکزی قیادت نے احتجاجی دھرنوں کو ختم نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات جائز ہیں جن کو تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ان کے بقول نہ صرف پر امن لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں بلکہ حالات بھی ان رکاوٹوں کی وجہ سے خراب ہوئے جو کہ حکومت اور اس کے اداروں کی جانب سے ڈالی گئی تھیں۔
’