اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ آئی پی پیز کا مسئلہ سیاسی نہیں، ہر ایک چاہتا ہے کہ بجلی سستی ہو، کچھ لوگ بجلی کے معاملے کو سیاست کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر کاربند ہیں، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے، ڈسکوز کو سیاسی مداخلت سے پاک کیا جائے گا۔جمعرات کو یہاں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما مصطفی کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور مصطفیٰ کمال پر مشتمل ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے وزیراعظم شہباز شریف ملاقات کی، ملاقات میں بجلی کے بلوں اور آئی پی پیز کے حوالے سے معاملات زیر غور آئے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ حکومت کے اتحادی کے طور پر حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے میں مثبت کردار ادا کیا جس پر اس کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کا معاملہ پوری قوم کا معاملہ ہے، 2013 میں جب ہماری حکومت آئی تھی تو ہم نے 18، 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا، اس وقت وفاق اور پنجاب کی حکومتوں نے آر ایل این جی کے سستے ترین بجلی کے پلانٹس لگائے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر کاربند ہیں، وزیراعظم نے آتے ہی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا اعلان کیا جس کے بعد قانون کے اندر سٹیٹ اون انٹرپرائزز ایکٹ میں ترمیم کی گئی جس کے ذریعے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی پرائیویٹائزیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈسکوز کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے اور پروفیشنل اور اہل افراد کو لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے قانون میں ترمیم کی گئی، ڈسکوز کی پرائیویٹائزیشن وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ200 یونٹ استعمال کرنے والے پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ بجلی کے صارفین کو تین ماہ جون، جولائی اور اگست کے لئے 50 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، یہ خطیر رقم پی ایس ڈی پی کے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کر کے سبسڈی کی مد میں دی گئی تاکہ موسم گرما میں عوام کے بجلی کے بل کم آئیں۔ انہوں نے کہا کہ اوور بلنگ اور بجلی چوری کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ میں 10 دن کی توسیع اس لئے کی گئی کہ اوور بلنگ کے معاملات کو دیکھا جا سکے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آئی پی پیز سیاسی مسئلہ نہیں، ہر دور میں آئی پی پیز لگتی رہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سارے سسٹم کو آگے کس طرح لے کر چلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے معاملہ پر پہلے سے بات چیت چل رہی ہے، ہر ایک چاہتا ہے کہ بجلی سستی ہو۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پہلے دن سے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر اس لئے کاربند تھے کہ فسکل سپیس پیدا کی جائے اور بجلی سستی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے اکابرین نے اس قومی نوعیت کے معاملے کو اجاگر کیا، حکومت کی تمام اتحادیوں کا مشترکہ فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی رائے دیں اور اس حوالے سے اپنی کاوشیں بروئے کار لائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں، ماضی میں بہت سے لوگ برسراقتدار بھی رہے ہیں، اس مسئلے پر مثبت پیرائے میں بات کرنی چاہئے۔ تنقید برائے تنقید نہیں، تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئے، اس قومی نوعیت کے معاملے کو مل جل کر حل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی بھی یہی ترجیح ہے کہ بجلی سستی ہو اور حکومت پہلے دن سے اس پر کام کر رہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ گندم بحران کے حوالے سے اس وقت کے سیکریٹری قومی غذائی تحفظ کو او ایس ڈی بنایا گیا، پاسکو کے افسران کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی گئی۔ ری سٹرکچرنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کا عمل جاری ہے، ملینڈا گیٹس فائونڈیشن کے ذریعے مکینزی کارپوریشن ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر کام کر رہی ہے، اس پر حکومت پاکستان کا ایک روپیہ خرچ نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس بیس کو وسیع کیا گیا ہے، فائلرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، تقریباً 49 لاکھ فائلرز کی تعداد بڑھی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ بند کیا، پی ڈبلیو ڈی کرپشن کا گڑھ تھا، اس کو بند کرنے سے سالانہ کئی سو ارب روپے کی بچت ہوگی، یہ اسی معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رائٹ سائزنگ اور ڈائون سائزنگ کے حوالے سے معاملات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کا وفد بھی پاکستان کے دورہ پر موجود ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں ہم چار فیصد مہنگائی چھوڑ کر گئے تھے، شرح نمو 6 فیصد پر تھی، اس کے بعد چار سال کے دوران ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا گیا، مہنگائی 23 فیصد پر چلی گئی، 6 فیصد کی شرح نمو کم ہو کر 1 فیصد پر آ گئی، ملک ڈیفالٹ کے دھانے پر پہنچا تو کہا گیا کہ امریکی سازش ہے، ملک میں نفرت اور تشدد کو پروان چڑھایا گیا، بہت سے لوگ ڈیفالٹ کی چھاپ سے بچنے کے لئے چھٹی پر چلے گئے۔انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ ہو جاتا تو ملک میں خانہ جنگی ہوتی، سڑکوں پر لوٹ مار ہو رہی ہوتی، پاکستان میں بیرون ملک سے ایئر لائنز آنا بند ہو جاتیں، بینکوں کے باہر رقوم نکلوانے کے لئے لوگوں کی طویل قطاریں لگی ہوتیں، پٹرول کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہوتیں کہ پٹرول قوت خرید سے باہر ہو جاتا، ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا، آج پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی گنجائش رکھی گئی تھی لیکن اسے نہیں لگنے دیا۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے دور میں روپے کی قدر اتنی غیر مستحکم تھی کہ برآمد کنندگان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس ریٹ پر برآمدات کرنی ہیں، ایل سیز کھلنا بند ہو چکی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈالر کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کو روکا، برآمدات 28 ارب ڈالر سے 31 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، آج روپیہ مستحکم ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت معاشی اصلاحات پر پہلے ہی کام کر رہی ہے، احتجاج مسائل کا حل نہیں، جماعت اسلامی کے زعماء ہمارے لئے قابل احترام ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمارا عزت و احترام کا رشتہ ہے، کل بھی حکومت کی ٹیکنیکل کمیٹی کے جماعت اسلامی سے مذاکرات ہوئے، جماعت اسلامی احتجاج ختم کر کے ہمارے ساتھ مسائل کے حل پر بات چیت کے لئے بیٹھے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ تحریک انصاف کے بن مانگے ریلیف دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ آئین میں واضح ہے کہ اگر کسی آزاد رکن کو کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہے تو وہ تین روز کے اندر شمولیت اختیار کر سکتا ہے، بصورت دیگر 63A نافذ ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے آئین بھی واضح ہے، کمیٹی میں اس میں بات ہوگی جب یہ قانون کا حصہ بنے گا تو سامنے آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پہلے کہتے تھے کہ میں چھوڑوں گا نہیں، اب وہ کہتے ہیں مجھ سے بات کرو، گالم گلوچ اور نفرت کی سیاست بانی پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ ہے اور یہ ان کے اندر رچ بس گیا ہے، مجھ سے بات کرو کا ایجنڈا سازشی ذہن کی اختراع ہے۔