کراچی (رپورٹ ۔آغاخالد)سہی کہتے ہیں عورت اور اونٹ کی کونسی کل سیدھی کوئی نجومی نہیں بتاسکتا، ظہیر بھائی بتارہے تھے، نوجوانی میں نواز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلی کے دور میں بہاول پور کے چولستان کو ترقی دینے کے لئے چولستان ڈیولپمنٹ اتھاریٹی قائم کی اور اور اس کا ذیلی دفتر چولستان کے اندر بنایا جہاں ایک جدید لوازمات سے سجا مہمان خانہ (ریسٹ ہائوس) بھی تعمیر کیاگیا تھا اس ریسٹ ہائوس اور ذیلی دفتر میں 18/19 گریڈ کے کئی افسر تعینات تھے مگر مہمان خانہ کا نگراں ظہیر آرائیں کو مقرر کیاگیا وہ پہلے سے ہی چولستان اتھاریٹی میں افسر تھے مقصد تو اتھاریٹی بنانے کا چولستان کو لہلہاتے نخلستان میں بدلنا تھا مگر کھلنڈرے نواز شریف نے اصل مشن کے ساتھ چڑیوں کو دانہ ڈالنے کے لیے بھی چولستان کے مہمان خانہ کو چن لیا اور یہ کوئی انوکھی مثال نہیں سرکاری مہمان خانے اکثر افسران کی عیاشی کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں نواز شریف ہر مہینے، "شب نشاط” منانے پہنچ جاتے اور خوب کنایۃ وصل مناتے بقول ظہیر بھائی کے ہر مرتبہ محبوب بدلتے رہتے مگر زیادہ تر قرعہ فال اس حسین و جمیل گلوکارہ کا نکلتا اور جب وہ ساتھ ہوتیں تو نواز وزیر اعلی کم خادم ادنی زیادہ نظر آتے مگر اقتدار کی مصروفیات کے سبب اکثر ایسا بھی ہوتا کہ صاحب رات گئے یا علی الصبح پہنچتے مگر "منکوحہ غیر” سورج ڈھلتے ہی پہنچ جاتیں اور پھر انتظار کی گھڑیاں اللہ اللہ۔۔۔ادھر رات گئے مدہوشی میں وہ پری پیکر اپنی خواب گاہ سے نکل کر لان میں پڑی بید کی کرسیوں پر ٹانگیں پھیلاکر بیٹھ جاتیں اور نیلے آسمان پر چمکتے ستاروں سے لطف اندوز ہوتی رہتیں اور گھنٹوں اسی حالت میں جیتے جاگتے محو خواب ہوتیں مہمان خانہ کے چھوٹے ملازمیں جو ڈیوٹی پر ہوتے ایسے میں الرٹ رہتے اور وقفہ وقفہ سے آکر ظہیر بھائی کے کمرہ میں رپورٹ دیتے رہتے اور ظہیر بھائی کا کہنا تھا کہ میں وزیر اعلی کی آمد یا ان کی خواب گاہ کی بتی بجھنے تک سو نہیں سکتاتھا یہ میری ڈیوٹی اور پروٹو کول کی لازمی ضرورت تھی کیونکہ وزیراعلی اکثر بغیر پروٹوکول کے آتے تھے اور ان کا ذاتی عملہ بھی محدود ہی ہوتا تھا اس لیے ان کی حفاظت اور ضروریات کا خیال رکھنا بھی میری ذمہ داری تھی جس پر میں اکثر نالاں ہوکر افسران سے اپنے تبادلہ کی درخواست کرتا یوں بھی یہ تعیناتی مجھے پسند نہیں تھی جبکہ ہمارے محکمہ کے کئی دیگر افسران اس منصب کے لیے بڑی موٹی سفارشیں کرواتے اور میں دل ہی دل میں ان کی دعاء کی قبولیت کا خواہش مند رہتا مگر ڈی جی اور دیگر بڑے افسران اس حساس جگہ کی اہمیت اور ذمہ داری کو سمجھتے ہوے مجھے بدلنے کو تیار نہ تھے یوں میری فرض شناسی ہی میری سزا بن گئی تھی کبھی کبھی اس ڈیوٹی سے مجھے بڑی گھن آتی اور میں بیزار ہوکر افسران سے تبادلہ کی التجا کرتا مگر وہ ٹال دیتے خاص طور پر ڈی جی کہتے میں تم سے بہت خوش ہوں پھر وہ بڑی شفقت سے کہتے یوں بھی ظہیر یہ ایک حساس جگہ ہے یہاں تم جیسے ذمہ دار افسر کی تعیناتی ضروری ہے، ایک روز شام گئے اطلاع ملی کہ وزیر اعلی آج یہاں قیام کریں گے مگر ان کے مہمان پہلے پہنچ جائیں گے اطلاع کا مطلب کھانا وانا تیار کرنا ہوتا تھا اور شب 8 بجے کے قریب مہمان پہنچ گئے وہ ملک کی مشہور مغنیہ تھیں اور آج پھر وہ مہمان خاص تھیں انہیں ہم اکثر دیکھتے رہتے تھے اور ایک رات میں کئی بار سامنا بھی ہوتا تھا مگر آج تو ان کی سج دھج ہی نرالی تھی وہ وزیر اعلی کے پروٹو کول کی گاڑی میں تھیں شوفر نے دروازہ کھولا تو وہ باہر نکلیں قیامت کامنظر تھا ہمارے عملہ کا ہر رکن ششدر کھڑا تھا چھوٹا ہو یا بڑا سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں قدرت کی وہ بلاشبہ شاندار تخلیق تھیں ملگجی رنگ کی کی ساڑھی پر نیلے پھولوں میں سرخ اور پیلے رنگ کے چھینٹے مارے گئے تھے سراہی دار گوری جمکتی گردن میں قیمتی نیلے رنگ کا نیکلس اور کانوں میں اسی رنگ کے بندے بالوں کاسلیقہ سے گندھا جوڑا وہ حسن و جمال کا عظیم شاہکارتھیں مجھے نواز شریف کی قسمت پر جو خود بھی مردانہ وجاہت کا پیکر تھے بہت رشک آیا اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی کمزویوں سے قطع نظر وہ بہت باوقار خاتون تھیں سارے اسٹاف کی یہ متفقہ رائے تھی کہ وہ جب کسی بھی کام کے سلسلہ میں انہیں مخاب کرتیں ہیں تو کبھی ان کا لہجہ حکمیہ نہیں ہوتا اور یہاں تک کہ وہ ملازمین سے نظریں بھی چار نہیں کرتیں اور ان کے دھیمے لہجہ سے ہمیشہ شفقت ٹپکتی ہے جس سے عملہ بھی ان کا گرویدہ تھا وہ ہمیشہ کی طرح چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اپنے کمرہ میں چلی گئیں جہاں پہلے سے ان کی ضروریات کی اشیاء چھوٹے فرج میں یا میز پر سجادی گئی تھیں پھر بھی ایک شخص کی ڈیوٹی ان کے کمرہ سے متصل لگادی گئی اور میں اپنے کمرہ میں چلا گیا انتظار کی گھڑیاں بڑی کھٹن ہوتی ہیں اور شب خلوت میں طوالت تو زہر قاتل ہے ہی ہماری معزز مہمان بے چینی سے کبھی لان میں ٹہلنے لگتیں اور کبھی آرام دہ کرسی پر جھولنے لگتیں اور کبھی کمرے میں چلی جاتیں اور ہر تھوڑی دیر بعد وہ خادم سے کہتیں صاحب کو فون کرو وہ کہاں پہنچے ہیں مگر وصل کی رات، شب زفاف میں طول پکڑ رہی تھی اس وقت تک موبائل فون ایجاد نہیں ہوے تھے تاہم پی ٹی سی کی زمینی پانچ لائنیں ہمیں ملی ہوئی تھیں پھر وزیر اعلی کی ہاٹ لائن کا وائرلیس فون بھی میسر تھا مگر ہم وہ استعمال نہیں کرسکتے تھے اس مہمان خانہ کا صرف یہی استعمال نہ تھا بلکہ صحرا کی راتوں کے نواز شریف دیوانے تھے وہ اکثر اہم اجلاسوں کا یہاں انعقاد کرتے اور ان کے قر یبی دوست یا کوئی خاص غیر ملکی مہمان بھی آتا تو اسے صحرا میں لے آتے یہاں کی شکار گاہ بھی بڑی مشہور تھی اس لیے وزیر اعلی کے خاص مہمان اس کا بھی فائدہ اٹھاتے خاص طور پر صحرائی ہرن کا گوشت بہت لذیذ ہوتاہے اس لیے اس کا شکار کیا جاتا اور پھر مہمان خانہ کے لان میں کوئلوں کی انگیٹھیوں پر بھنا جاتا یوں رات بھر مہمان نوازی جاری رہتی یہاں کی خنکی بھری سرد راتوں میں مہمانوں کو آسماں پر جگ مگ کرتے ستاروں سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کیے جاتے اور صبح صادق کی اسیر کردینے والی ابھرتی نکھرتی روشنی دکھاتے جو مہمانوں کو اپنے قدرتی سحر میں جکڑ لیتی اس طرح وزیر اعلی کی اس دل چسپی کے سبب بہاولپور کا ایئر پورٹ بھی جدت پاگیا ورنہ قبل ازیں وہ صرف فوجی ضروریات ہی تک محدود تھا وہ جب بھی آتے یا ان کے مہمان آتے ان کا خصوصی جہاز سروس دیتا انہیں اس وقت کوئی ڈر بھی اس لیے نہ تھا کہ وہ احتسابیوں کے ہی تو لاڈلے تھے چہ جائکہ انہوں نے ترقیاتی اسکیموں کاجال بچھاکر پنجاب کو مثالی صوبہ بنادیا تھا وہ پنجاب کو جیتنے اور پی پی کے اثر سے نکالنے کی خاطر تیزی سے جدید سہولتوں سے آراستہ کرہے تھے مگر دوسری طرف وہ لاڈلے ہونے کا بھرپور فائدہ بھی اٹھارہے تھے، رات کے 2 بج رہے تھے جب مادام کا صبر جواب دے گیا اور انہوں نے کہاکہ مجھے واپس جاناہے ڈرائیور کو بلائو ایک خادم نے مجھے اطلاع دی تو میں پریشاں ہوگیا اب ہم دوہری آزمائش میں تھے کہ ہماری یہ اوقات کہاں، وزیر اعلی کو فون کریں جبکہ دوسری طرف مادام کی ناراضگی بھی قیامت ڈھا سکتی تھی مینے ڈرتے ڈرتے شب 2 بجے ڈی جی کو فون ملایا تو انہوں نے پہلے تو اس وقت فون کرنے پر ناگواری کا اظہار کیا پھر ماجرا سن کر بولے اچھا میں چیف صاحب (وزیر اعلی) سے بات کرتا ہوں تھوڑی دیر بعد ان کی کال آئی جو آپریٹر نے براہ راست مادام سے ملوادی، دوطرفہ ہونے والی گفتگو کاتو پتہ نہیں البتہ مادام اس کے بعد صحن میں آرام دہ کرسیوں پر نیم دراز ہوگئیں اور شاید ستارے گنتے ہوے نیند کی آغوش میں پہنچ گئیں کیونکہ پھر ان کی طرف سے کوئی طلبی نہیں ہوئی، شب ڈھائی یا تین بجے کے قریب ہنگامی کال موصول ہوئی کہ وزیر اعلی پہنچ رہے ہیں مگر ان کی آمد سے قبل ہی کھانا لگادیا جائے مادام کو جگادیاگیا اور کھانا ابھی صرف ہو ہی رہا تھا کہ نواز شریف پہنچ گئے مگر آج موصوفہ کی طرف سے ان کے استقبال میں وہ والہیت ناپید تھی اور محبوب کی تانیث کا روٹھا موڈ تو چاند کے حسن کو بھی گہنا دیتاہے نواز شریف شرمندہ سے بے ساختہ اپنے صنم کی طرف بڑھے اور خلاف توقع پہلی بار ان کا ہاتھ تھام کر کمرے میں لے گئے کافی دیر بعد باہر آئے تو دونوں کے چہرے اور موڈ خوش گوار تھے کھانے کے بعد وہ معمول کے برعکس صحن میں لگی بید کی کرسیوں پر ہی بیٹھ گئے اور پھر ہمیشہ کی طرح خوش گلو مغنیہ چاند کی روشنی میں جھولے پر دوزانو بیٹھ کر بغیر موسیقی بغیر کسی دھن کے نغمہ سرا ہوئیں تو ہر سو جل ترنگ بج اٹھے،
"سامنے آجا پھر اک بار، تیرا میرا نت کا پیار”
یہ گیت تو وہ اکثر گاتی تھیں اس لیے یاد رہا ورنہ ہر ملاقات میں رات کے زیادہ پہر تو ان کے ایک دوسرے کو گیت سناتے گرتے تھے اور نواز شریف کے اس ذوق کو دیکھ کر سبھی عملہ متفق تھا کہ وہ موسیقی کے رسیا ہیں شاید ان کے اسی شوق نے آتش قیس بھڑکائی اور بات یہاں تک جاپہنچی، میں ایسے میں اپنے کمرے کی صحن میں کھلنے والی کھڑکی کھول دیتا اور بستر پر لیٹ کر تصور میں ان کی گائکی سے محظوظ ہوتا رہتا اس روز ادائے دل ربا پر فریفتہ وزیر اعلی نے سریلی کوئل، دل کش تکلم، خوش ابرو، خوش ادا، خوش اطوار، مہذب، باوضع، اقبال مند، خوش اختلاط اور سروں کی ملکہ پر واری جاتے ہوے خود بھی متعدد پرانی فلموں کے گیت گن گنائے جس سے مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہواکہ وہ اپنی محبوبہ کی طرح خوش گلو بھی ہیں ادائے محبوبیت میں کھوئے جوڑے کو شب کے اندھیرے کے چھٹنے کی خبر بھی نہ ہوئی، صبح کاذب کی سحر انگیزی نے انگڑائی بھری تو وہ دونوں سٹ پٹاکر تیزی سے کمرے کی طرف چلے گئے،
(بقیہ اگلی اور اخری قسط میں)